"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا یہ نمازیں بلند آواز سے تلاوت کے ساتھ پڑھی جائیں گی یا آہستہ آواز میں: نماز مغرب کی نفل رکعات، مغرب کی نماز کی طرح وتر ادا کرنے کی صورت میں وتر کی تیسری رکعت ، قیام اللیل، نماز فجر کی سنتیں، اور اشراق کی نماز۔
الحمد للہ.
اول:
علمائے کرام رحمہم اللہ نے ذکر کیا ہے کہ دن کی نفل نمازوں میں تلاوت سِرّی یعنی آہستہ آواز میں کی جائے گی، جبکہ رات کی نفل نماز کے لیے نمازی کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ سری نماز پڑھے یا جہری [یعنی بلند آواز سے]، تاہم جہری تلاوت افضل ہے۔
اور "كشاف القناع" (1/441) میں ہے کہ یہاں دن کا تعلق طلوع شمس سے ہے نا کہ طلوع فجر سے، تو اس اعتبار سے فجر کی سنتیں بھی رات کی نماز میں شمار ہوں گی۔
ہم نے پہلے سوال نمبر: (91325) کے جواب میں علمائے کرام کے اقوال کو ذکر کیا ہے۔
اس بنا پر نماز اشراق میں نمازی سری تلاوت کرے گا؛ کیونکہ یہ دن کی نفل نماز ہے۔
جبکہ مغرب کی نفل نماز، وتر کی تیسری رکعت، قیام اللیل اور فجر کی سنتوں کے بارے میں اختیار دیا جائے کہ انہیں ادا کرتے ہوئے جہری تلاوت کرے یا سری، تاہم جہری تلاوت افضل ہے، ہاں اگر سری تلاوت سے خشوع زیادہ پیدا ہو گا، یا پھر مریض یا قریب ہی کوئی سویا ہوا شخص بلند آواز سے پڑھنے کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتا ہے تو پھر سری تلاوت کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رات کے وقت پڑھی جانے والی نمازوں کے متعلق سنت تو یہ ہے کہ جہری تلاوت ہو، اب نماز پڑھنے والا اکیلا شخص ہو یا کوئی اور اس کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو، چنانچہ ساتھ نماز پڑھنے والی کوئی عورت ہے مثلاً اس کی بیوی یا کوئی اور عورت ہے تو وہ اس کے پیچھے اکیلی ہی صف میں کھڑی ہو گی، تو اگر وہ اکیلا ہی نماز پڑھ رہا ہے تو اسے تلاوت با آواز بلند یا آہستہ کرنے کا اختیار ہے، چنانچہ اس کے لیے شرعی عمل یہی ہے کہ وہ ایسا طریقہ اپنائے جو اس کے دل پر زیادہ اثر انداز ہو، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتلایا کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کی نماز میں کبھی جہری تلاوت کرتے تھے اور کبھی سری کرتے تھے) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کی احادیث میں ثابت ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کی نماز میں جہری تلاوت کرتے تھے اور رحمت والی آیت پر رک کر اللہ سے رحمت مانگتے اور جب وعید والی آیت پر پہنچتے تو اس سے پناہ مانگتے، اور جب تسبیح والی آیت سے گزرتے تو اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے تھے) یعنی مطلب یہ ہے کہ جب ایسی آیات گزرتیں جن میں اللہ تعالی کے اسما و صفات کا ذکر ہوتا ہے تو اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے تھے۔
آپ ہی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
ترجمہ: البتہ تحقیق تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات عملی نمونہ ہیں۔ [الاحزاب: 21]
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
تو ان احادیث نے یہ بتلایا کہ رات کی نماز میں تلاوت جہری کرنا افضل ہے، اور ویسے بھی بلند تلاوت سے دل میں خشوع زیادہ پیدا ہوتا ہے اور سامعین کو بھی فائدہ زیادہ ہوتا ہے، الّا کہ اس کے ارد گرد بیمار ، یا سوئے ہوئے لوگ موجود ہوں یا دیگر افراد بھی نماز پڑھ رہے ہوں یا تلاوت کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں افضل یہ ہے کہ اتنی آواز دھیمی کر لے کہ اس کی آواز سے دیگر نمازی اور تلاوت کرنے والے پریشان نہ ہوں، یا سوئے ہوئے لوگ بیدار نہ ہوں، اور بیمار شخص کو تکلیف نہ ہو۔
اور اگر سیدہ عائشہ کی مندرجہ بالا حدیث کے مطابق نماز کے بعض حصوں میں تلاوت سری کرتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، ویسے بھی ہو سکتا ہے کہ بسا اوقات سری تلاوت دل کے لیے زیادہ خشوع کا باعث بنے ۔" ختم شد
" مجموع فتاوی الشیخ ابن باز " ( 11 / 124 ، 125 )
ابن باز رحمہ اللہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ:
"اگر انسان اکیلے ہی نماز پڑھ رہا ہے تو اس کے لیے سری یا جہری تلاوت میں سے وہی شرعی عمل ہے جو اس کے دل کے لیے زیادہ بہتر ہو، مثلاً وہ رات کی نماز میں اکیلا ہے اور کوئی بھی جہری تلاوت کی وجہ سے تنگ نہیں ہو گا ۔ لیکن اگر اس کی جہری تلاوت سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے مثلاً: نمازپڑھنے والے یا تلاوت کرنے والے آس پاس ہیں، یا لوگ سوئے ہوئے ہیں تو اس کے لیے آواز آہستہ کرنا شرعی عمل ہے۔
لیکن جو دن میں پڑھی جانے والی نمازیں ہیں مثلاً: نماز اشراق، سنت مؤکدہ، نماز ظہر اور عصر ، تو ان کے متعلق مسنون عمل یہ ہے کہ تلاوت آہستہ آواز میں کی جائے۔"
" مجموع فتاوی الشیخ ابن باز " ( 11 / 126 ، 127 )
دوم:
جبکہ سائل کا یہ کہنا کہ: " مغرب کی نماز کی طرح وتر ادا کرنے کی صورت میں وتر کی تیسری رکعت " تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب کی نماز کی طرح وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تین وتر نہ پڑھو کہ مغرب کے ساتھ اس کی مشابہت ہو) اس حدیث کو امام حاکم: ( 1/304 ) ، بیہقی: ( 3 / 31 ) اور دارقطنی: ( ص 172 ) نے روایت کیا ہے، نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری"( 4 / 301 ) میں لکھتے ہیں کہ : اس روایت کی سند بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ صحیح ثابت ہے کہ آپ نے تین وتر دو صورتوں میں ادا کیے ہیں:
پہلی صورت: تین رکعات دو تشہد اور دو سلاموں کے ساتھ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم دو رکعت ادا کرتے اور سلام پھیرتے ، اور پھر ایک رکعت الگ سے ادا کرتے اور پھر سلام پھیر دیتے تھے۔
اس کی دلیل میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم [وتر کی پہلی]دو رکعتوں اور [تیسری]آخری رکعت میں سلام پھیرتے تھے جو ہمیں سنائی بھی دیتا تھا۔ اس حدیث کو ابن حبان: (2435) نے روایت کیا ہے، نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری"( 2/ 482) میں لکھتے ہیں کہ : اس روایت کی سند قوی ہے۔
دوسری صورت: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین رکعت ایک تشہد اور ایک ہی بار دونوں طرف سلام کے ساتھ ادا کیں۔
اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تین رکعات نماز ادا کرتے اور صرف آخر میں ہی تشہد بیٹھتے تھے۔ اس اثر کو بیہقی : (4581) نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو امام حاکم نے " المستدرك " ( 1 / 304 ) میں صحیح کہا ہے نیز امام ذہبی نے ان کی موافقت بھی کی ہے، اسی طرح امام نووی نے بھی اس کو " المجموع " ( 4 / 7) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"پانچ اور تین رکعت وتر ادا کرتے ہوئے ہر دو رکعت کے درمیان بیٹھنا اور سلام نہ پھیرنا : اس کے بارے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ کوئی دلیل نہیں ملی، بنیادی طور پر تو یہ جائز ہے، لیکن چونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تین وتر پڑھنے سے منع فرمایا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ: (انہیں مغرب کی نماز کے مشابہ نہ بنائیں) تو اس وقت ضروری ہو گیا کہ مغرب کی نماز کی طرح وتر ادا نہ کیے جائیں، اور مغرب کی نماز سے عدم مشابہت دو طرح سے ہو سکتی ہے:
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (46544) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم