"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
جس بچے كے متعلق دريافت كيا گيا ہے وہ اس عورت كا محرم ہے، لہذا اس كے ليے اس سے مصافحہ كرنا اور اس كے سامنے پردہ نہ كرنا اور وہ كچھ ظاہر كرنا جو اپنے محرم مرد كے سامنےظاہر كيا جا سكتا ہے جائز ہے، اس پر اس كے نانے كا فوت شدہ ہونا كوئى اثرانداز نہيں ہو گا.
اور وہ اس عورت كا محرم اس وجہ سے ہے كہ وہ اس كى ماں كى جانب سے اس كے نانے كى بيوى ہے، اور انسان پر اس كے باپ كى بيوى اور دادے اور نانے كى بيوى چاہے وہ اس سے بھى اوپر ہوں ابدى حرام ہيں، چاہے وہ دادا يا نانا اس كےماں كى جانب سے ہو يا اس كے باپ كى جانب سے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم ان عورتوں سے نكاح نہ كرو جن سے تمہارے باپوں نے نكاح كيا ہے، مگر جو گزر چكا ہے، يقينا يہ بہت ہى برا اور فحش اور ناراضگى والا كام اور برا راہ ہے النساء ( 22 ).
زاد المستقنع ميں درج ہے:
" اور عقد نكاح سے باپ كى بيوى اور ہر دادا اور نانا كى بيوى حرام ہو جاتى ہے "
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عقد سے مراد صحيح عقد نكاح ہے، اس سے باپ كى بيوى چاہے وہ اس سے بھى اوپر ہو حرام ہو جاتى ہے، اس ليے ہر وہ عورت جس سے اس كے والد نے نكاح كيا ہو چاہے اسے طلاق ہى دے دى ہو تو وہ اس كے ليے ابدى حرام ہے.
اور ہر وہ عورت جس سے اس كے دادے نے نكاح كيا چاہے وہ باپ كى جانب سے ہو يا ماں كى جانب سے تو وہ بھى اس كے ليے ابدى حرام ہو گى، اس كى دليل يہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور تم ان عورتوں سے نكاح مت كرو جن سے تمہارے باپوں نےنكاح كيا، مگر جو گزر چكا ہے، يقينا يہ بےحيائى اور فحش كام اور بغض و ناراضگى اور برا راہ ہے .
اس ليے اگر وہ اس سے نكاح كرتا ہے تو يہ زنا سے بھى بڑا گناہ ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا زنا كے متعلق فرمان ہے:
اور تم زنا كے قريب بھى نہ جاؤ، يقينا يہ بےحيائى اور برا راہ ہے .
ليكن يہاں اللہ تعالى كا فرمان ہے:
يقينا يہ بےحيائى اور بغض و ناراضگى والا كام اور برا راہ ہے .
اللہ محفوظ ركھے محرم عورتوں سے نكاح كرنا زنا سے بھى زيادہ بڑاگناہ ہے، اسى ليے اكثر اہل علم كہتے ہيں كہ جو شخص كسى محرم عورت كے ساتھ زنا كرے چاہے وہ شادى شدہ نہ بھى ہو تو اسے قتل كيا جائيگا.
اس كے متعلق سنن ميں ايك حديث پائى جاتى ہے، تو پھر باپ كى بيوى چاہے وہ اوپر ہى ہو حرام ہوئى وہ باپ كى جانب سے ہو يا ماں كى جانب سے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ميں كوئى شرط نہيں ركھى كہ دخول ہوا ہو يا نہ، بلكہ صرف عقد نكاح صحيح ہونے سے ہى وہ ابدى حرام ہو جاتى ہے اور يہ حكم ثابت ہو جائيگا " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 198 ).
اسميں اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ باپ كى بيوى كے حرام ہونے كے متعلق كلام كرتے ہوئے كہتے ہيں:
چاہے اس ميں باپ كى بيوى يا دادے كى بيوى ہو، چاہے وہ اس كى ماں كى جانب سے ہو يا باپ كى جانب سے قريب سے ہو يا دور سے سب برابر ہے، الحمد للہ ہمارے علم كے مطابق تو اہل علم كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 9 / 518 - 524 ).
دوم:
رہا مسئلہ بوسہ لينے كا تو اگر فتنہ اور خرابى كا خدشہ نہ ہو تو اس كے ليے بوسہ لينا جائز ہے، ليكن بہتر يہى ہے كہ وہ بوسہ سر يا پيشانى كا لے.
امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
كيا آدمى محرم عورت كا بوسہ لے سكتا ہے ؟
تو انہوں نے جواب ديا:
" جب وہ سفر سے واپس پلٹے اور اسے اپنے نفس كا خطرہ نہ ہو ... ليكن وہ منہ اور رخسار پر كبھى نہ كرے، بلكہ پيشانى يا چہرہ پر بوسہ لے "
ديكھيں: الآداب الشرعيۃ تاليف ابن مفلح ( 2 / 266 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے محرم عورتوں كا بوسہ لينے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" محرم عورتوں كا شہوت كے ساتھ بوسہ لينا، يا پھر جب انسان كو خدشہ ہو كہ ايسا كرنے سے شہوت انگيخت ہو گى تو بلاشك و شبہ حرام ہے، اور جب اسے خدشہ نہ ہو تو پھر سر يا پيشانى كا بوسہ لينے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن رخسار كا بوسہ لينے سے اجتناب كرنا چاہيے، صرف والد اپنى بيٹى اور ماں اپنے بيٹے كا بوسہ لے سكتى ہے، كيونكہ يہ آسان ہے، اس ليے كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى بيمار پرسى كے ليے گئے تو انہوں نے ان كے رخسار كا بوسہ ليا اور كہنے لگے: ميرى بيٹى تمہارا كيا حال ہے ؟ " انتہى
ديكھيں: فتاوى علماء بلد الحرام ( 691 ).
واللہ اعلم .