"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مسلمان لباس ميں اپنے آپ كو كفار سے كيسے ممتاز كرتے تھے ؟
كيا مكہ كے كافر بھى لمبى قميص جو آج كل توب كے نام سے پہچانى جاتى ہے پہنا كرتے تھے، اس بنا پر كيا كھلا لباس اسلامى لباس شمار ہوتا ہے ؟
الحمد للہ.
لباس اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك نعمت ہے، جس سے انسان اپنا ستر چھپاتا ہے، اور گرمى و سردى سے بچتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس انعام اور احسان كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اے بنى آدم ہم نے تمہارے ليے لباس پيدا كيا جو تمہارى شرم گاہوں كو بھى چھپاتا ہے اور موجب زينت بھى ہے، اور تقوے كا لباس يہ اس سے بڑھ كر ہے، يہ اللہ تعالى ى نشانيوں ميں سے ہے تا كہ يہ لوگ ياد ركھيں الاعراف ( 26 ).
اور ايك دوسرے مقام پر فرمان بارى تعالى اس طرح ہے:
اس نے تمہارے ليے كرتے بنائے ہيں جو تمہيں گرمى سے بچائيں، اور ايسے كرتے بھى جو تمہيں لڑائى كے وقت كام آئيں وہ اسى طرح اپنى پورى پورى نعمتيں دے رہا ہے كہ تم حكم تسليم كرنے والے بن جاؤ النحل ( 81 ).
چنانچہ لباس ميں اصل اباحت ہے، اس ليے مسلمان جو چاہے پہن سكتا ہے چاہے وہ اس نے خود تيار كيا ہو يا غير مسلموں نے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ وہ لباس شرعى شروط كے مطابق ہو، مكہ وغيرہ ميں صحابہ كرام كا يہى حال تھا، كيونكہ مسلمان ہونے والا شخص كوئى خاص لباس نہيں پہنتا تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم شامى جبہ اور يمنى حلہ پہنا كرتے تھے، اور اسے تيار كرنے والے مسلمان نہيں تھے، اس ليے لباس ميں شرعى شروط كا اعتبار كيا جائيگا، آپ سوال نمبر ( 36891 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس ميں مردوں كے لباس كے احكام كا خلاصہ بيان كيا گيا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں عمومى طور پر كفار سے مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا ہے چاہے وہ لباس ميں ہو يا كسى اور چيز ميں مشابہت، اسى سلسلہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) العراقى نے احياء العلوم الدين ( 1/ 342 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 5 / 109 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور لباس ميں مشابہت اختيار كرنے كى نہى اور ممانعت خاص كر آئى ہے:
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں دو زرد رنگ كے معصفر كپڑے پہنے ہوئے ديكھا تو فرمانے لگے:
يہ كفار كے كپڑوں ميں سے ہيں، تم انہيں مت پہنو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2077 ).
اور امام نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے آذربائيجان كے مسلمانوں كو خط لكھا:
تم ناز و نعمت ميں پڑنے اور مشركوں كے لباس سے اجتناب كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2069 ).
كفار كا وہ لباس مسلمانوں كے ليے پہننا حرام ہے جو كفار كے ساتھ مخصوص ہے، اور دوسرے نہيں پہنتے، ليكن جو لباس كفار اور مسلمان سب پہنتے ہيں اسے زيب تن كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور نہ ہى اس ميں كوئى كراہت ہے، كيونكہ وہ كفار كے ساتھ مخصوص نہيں ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كفار سے كونسى مشابہت اختيار كرنى ممنوع ہے ؟
تو كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" كفار سے مشابہت اختيار كرنے كى ممانعت سے مراد يہ ہے كہ ان عادات وغيرہ ميں كفار كى مشابہت اختيار كرنا جو ان كے ساتھ مخصوص ہيں، اور انہوں نے دين كے عقائد اور عبادات كے امور ميں بدعات جارى كر لى ہيں، مثلا داڑھى منڈانے ميں كفار كى مشابہت اختيار كرنا....
رہا پتلون وغيرہ پہننے كا مسئلہ تو لباس ميں اصل اباحت ہے، كيونكہ يہ عادات كے امور ميں شامل ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ آپ فرمائيے كہ اللہ تعالى كے پيدا كيے ہوئے اسباب زينت كو جنہيں اللہ نے اپنے بندوں كے ليے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟
آپ كہہ ديجئے كہ يہ اشياء اس طور پر قيامت كے روز خالصتا اہل ايمان كے ليے ہونگى، دنيوى زندگى ميں مومنوں كے ليے بھى ہيں، ہم اسى طرح تمام آيات كو سمجھ داروں كے واسطے صاف صاف بيان كرتے ہيں }الاعراف ( 32 ).
اس سے وہ استثنى ہو گا جس كے حرام يا مكروہ ہونے پر شرعى دليل دلالت كرتى ہو مثلا: مردوں كے ليے ريشمى لباس پہننا حرام ہے، اور وہ لباس جو شرمگاہ كا حجم اور وصف واضح كرتا ہو اور باريك و شفاف لباس جس كے اندر سے جسم كا رنگ نظر آتا ہو يا اتنا تنگ كے شرمگاہ كى تحديد كرتا ہو.
كيونكہ اس حالت ميں يہ اسے ننگا كرنے كے حكم ميں آتا ہے، اور شرمگاہ كو ننگا كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح وہ لباس جو كفار كے ساتھ مخصوص ہيں، اور ان كى علامت ہيں ان كا بھى مسلمان مرد اور عورت كے ليے پہننا جائز نہيں.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كى مشابہت اختيار كرنے سے منع فرمايا ہے.
اور اسى طرح مردوں كا عورتوں جيسا لباس پہننا بھى جائز نہيں ہے، اور عورتوں كے ليے مردوں جيسا لباس پہننا جائز نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مردوں كو عورتوں كى مشابہت اختيار كرنے سے اور عورتوں كو مردوں كى مشابہت اخيتار كرنے سے منع فرمايا ہے.
پينٹ يا پتلون نامى لباس كفار كے ساتھ مخصوص نہيں، بلكہ يہ كئى ايك ممالك ميں كفار اور مسلمانوں ميں عام ہے، بعض ممالك ميں اسے زيب تن كرنے سے نفرت اس ليے كى جاتى ہے كہ وہ اس لباس سےمالوف نہيں، اور ان كى عادت ميں يہ لباس شامل نہيں ہے، اور اگرچہ يہ دوسرے مسلمانوں كى عادت كے موافق ہے، ليكن اولى اور بہتر يہى ہے كہ وہ كسى ايسے علاقے اور ملك ميں ہو جہاں كے لوگ يہ لباس نہيں پہنتے تو وہ يہ لباس زيب تن كر كے نماز ادا مت كرے، اور نہ ہى عام لوگوں كے جمع ہونےوالى جگہ ميں پہن كر جائے، اور نہ ہى عام راستوں پر " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 3 / 307 - 309 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا يہ بھى كہنا ہے:
" مسلمان مرد و عورت پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اسلامى اخلاق و عادات كا خيال اور انہيں اپنانے كى حرص ركھيں، اور اپنى شادى بياہ كى تقريبات اور لباس اور كھانے پينے اور زندگى كے سب معاملات ميں اسلام كا منھج اختيار كرتے اور اسلامى طريقہ پر چليں.
ان مسلمانوں كے ليے اپنے لباس ميں كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنا جائز نہيں، كہ وہ اتنے تنگ لباس پہنيں جو ستر ظاہر كريں، اور جسم كے اعضاء كا حجم اور اعضاء كى تحديد كريں، يا پھر اتنا باريك اور شفاف لباس مت پہنيں كہ وہ ستر پوشى كى بجائے ستر واضح كرے، يا پھر اتنا چھوٹا اور مختصر لباس بھى نہ پہنيں جوسينہ بھى نہ ڈھانپتا ہو، يا بازو ننگے ہوں، يا گردن اور سر اور چہرہ نظر آتا پھرے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 3 / 306 - 307 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كفار سے مشابہت كا كا مقياس كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" مشابہت كا مقياس يہ ہے كہ: مشابہت اختيار كرنے والى شخص وہ كام كرے جو اس شخص كے ساتھ مخصوص ہو جس سے مشابہت كى جارہى ہے، تو كفار سے مشابہت يہ ہے كہ مسلمان شخص كفار كے مخصوص كاموں ميں سے كوئى مخصوص كام كرے ليكن وہ كام اور چيز جو مسلمانوں ميں عام ہو چكى ہے اور پھيل گئى ہو اور كفار كا امتياز نہ رہى ہو تو پھر مشابہت نہيں ہو گى تو يہ مشابہت كى بنا پر حرام نہيں ہو گى، مگر يہ كہ وہ كسى دوسرى وجہ سے حرام نہ ہو.
ہم نے جو بات كہى ہے وہ اس كلمہ كے مدلول كا تقاضا ہے، اس كى صراحت فتح البارى ميں اس طرح كى گى ہے:
بعض اہل علم نے برانڈى ( برنس ) كو ناپسند كيا ہے؛ كيونكہ يہ راہبوں كا لباس ہے، امام مالك رحمہ اللہ سے اس كےمتعلق دريافت كيا تو ان كا جواب تھا:
اس ميں كوئى حرج نہيں.
انہيں كہا گيا: يہ تو عيسائيوں كا لباس ہے، تو انہوں نے جواب ديا: يہ يہاں پہنا جاتا تھا " انتہى.
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 272 ).
ميں كہتا ہوں: اگر امام مالك رحمہ اللہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے استدلال كرتے تو زيادہ بہتر اور اولى تھا:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جب محرم كے لباس كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ نےفرمايا:
" محرم شخص نہ تو قميص پہنے اور نہ ہى سلوار اور پائجامہ اور نہ ہى برنس "
اور فتح البارى ميں يہ بھى ہے:
اگر ہم يہ كہيں كہ: ريشمى بچھونے ( المياثر الارجوان ) سے عجميوں كے ساتھ مشابہت كى بنا پرمنع كيا گيا ہے، تو يہ دينى مصلحت ہے، ليكن يہ ان كا شعار تھا اور وہ اس وقت كافر تھے، پھر اب جبكہ ان كى علامت اور شعار نہيں رہا تو يہ معنى زائل ہو گيا تو اس طرح كراہت بھى زائل ہو گئى، واللہ تعالى اعلم "
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 307 ).
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 / 290 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر نجاست معلوم نہ ہو كفار كا لباس مباح ہے؛ كيونكہ اصل طہارت و پاكيزگى ہے؛ تو يہ شك سے زائل نہيں ہوتى، اور انہوں نے جو بنا ہے يا رنگا ہے وہ بھى مباح ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے صحابہ كرام كفار كے بنے اور رنگے ہوئے كپڑے پہنا كرتے تھے " انتہى.
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 1 / 20 ).
جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ:
مسلمان كے ليے كفار كے ساتھ ان اشياء ميں مشابہت اختيار كرنى حرام ہے، جو ان كفار كے ساتھ مخصوص ہيں، چاہے وہ لباس ہو يا كوئى اور كام وغيرہ، ليكن جو كفار كے ساتھ خاص نہيں تو اسميں كوئى حرج نہيں ہے.
واللہ اعلم .