"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے ديكھا ہے كہ آفس ميں بعض دوست اپنى داڑھيوں كو سياہ خضاب لگاتے ہيں، اور جب ميں نے انہيں پوچھا تو وہ كہنے لگے كتم كے ساتھ بال رنگنا سنت ہے.
ميرے درج ذيل سوالات ہيں:
كيا ميں اپنا سر اور داڑھى كو سياہ رنگ كا خضاب لگا سكتا ہوں، حتى كہ اگر مندرجہ بالا كتم سے بھى رنگا جائے ؟
الكتم كيا چيز ہے، اور كيا اس كا رنگ سياہ ہوتا ہے، اور كيا يہ صحيح ہے كہ كچھ صحابہ كرام نے يہ استعمال كيا تھا ؟
الحمد للہ.
اول:
بڑھاپے كے سفيد بالوں كو خضاب كے ساتھ رنگنا سنت ہے، اسلام ميں اس كى اجازت ہے، اور يہ خضاب مردوں كى داڑھى اور سر كے بالوں، اور عورت كے سر كے بالوں ميں لگايا جائيگا.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہودى اور عيسائى اپنے بال نہيں رنگتے، تم ان كى مخالفت كيا كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3275 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2103 ).
اور ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" اے انصار كى جماعت اپنے بالوں كو سرخ يا زرد كيا كرو، اور عجميوں كى مخالفتك رو "
مسند احمد حديث نمبر ( 21780 ) حافظ ابن حجر نے اس حديث كى سند كو فتح البارى ( 10 / 354 ) ميں حسن كہا ہے.
دوم:
ليكن سفيد بالوں كو سياہ رنگ كے خضاب سے رنگنا حرام ہے جمہور علماء كرام كا قول يہ ہے كہ وہ اسے يقينى حرام قرار ديتے ہيں كيونكہ حديث ميں ہے:
" جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو قحافہ كو ديكھا تو جابر رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ديكھا تو ان كا سر بالكل سفيد تھا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے تبديل كر دو ... "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2102 ).
اور ايك حديث ميں ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كچھ لوگ ہونگے جو سياہ رنگ كا خضاب لگائينگے جس طرح كہ كبوتر كے پوٹے ہوتے ہيں، وہ جنت كى خوشبو تك نہيں پائينگے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4212 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5075 ).
اس حديث كے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كى سند قوى ہے، ليكن اس كے مرفوع ہونے ميں اختلاف كيا گيا ہے، اگر اس كے موقوف ہونے كو فرض كيا جائے تو اس طرح كا شخص رائے كى بنا پر نہيں كہہ سكتا تو اس كا حكم مرفوع كا ہوگا ".
ديكھيں: فتح البارى ( 6 / 499 ).
سوم:
كتم كے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
الكتم يمن ميں ايك پودا پايا جاتا ہے جسے الكتم كہتے ہيں، اس سے سياہ رنگ كا سرخى مائل رنگ نكلتا ہے، اور مہندى كا رنگ سرخ ہے، تو ان دونوں كو ملا كر سياہ اور سرخ كے درميان رنگ بنےگا.
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 355 ).
چہارم:
كيا صحابہ كرام نے الكتم كے ساتھ خضاب لگايا تھا ؟
جى ہاں صحابہ كرام نے بھى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى ايسا كيا ہے.
عثمان بن عبد اللہ بن وھب بيان كرتے ہيں كہ ہم ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بال نكالا جو سرخ رنگ كے خضاب سے رنگا ہوا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5558 ).
ابن ماجہ اور احمد نے " مہندى اور الكتم " كے الفاظ كا اضافہ كيا ہے.
ديكھيں: سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3623 ) مسند احمد حديث نمبر ( 25995 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" تم جس سے بڑھاپے كے سفيد بالوں كا رنگ تبديل كرتے ہو اس ميں سب سے بہتر مہندى اور الكتم ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1753 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4205 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3622 ) اس حديث كو امام ترمذى نے حسن صحيح كہا ہے.
اور ابو بكر الصديق رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى مہندى اور الكتم كے ساتھ بالوں كو خضاب لگايا تھا.
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2341 ).
پنجم:
ديكھا جائے تو جتنى بھى احاديث ميں الكتم كا ذكر آيا ہے وہ مہندى كے ساتھ ملا كر آيا ہے، كيونكہ ان احاديث سے مراد يہ ہے كہ بالوں كو مہندى اور الكتم ملا كر رنگا جائے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ممانعت تو خالص سياہ رنگ كرنے كى ہے، ليكن اگر اس ميں مہندى يا كوئى اور چيز مثلا الكتم وغيرہ ملا لى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ مہندى اور الكتم بالوں كو سياہى اور سرخى كا درميانہ رنگ ديتے ہيں، وسمہ كے خلاف كيونكہ يہ تو بالكل سياہ كر ديتا ہے، اور صحيح يہى ہے "
ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 336 ).
وسمہ يہ بھى ايك پودا ہے جس سے خضاب بنايا جاتا ہے.
اس سے ہميں يہ معلوم ہوا كہ الكتم اكيلى استعمال نہيں ہو سكتى، كيونكہ يہ خالصتا سياہ رنگ ديتى ہے، ليكن اسے مہندى كے ساتھ ملا كر استعمال كيا جائے تا كہ يہ سرخى مائل رنگ دے تو جائز ہے، اس طرح احاديث كے درميان جمع ہو سكتا ہے.
واللہ اعلم .