"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اللہ تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلہ رحمی کی بہت تاکید کی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ: وہ کون سے رشتہ دار ہیں جن کے ساتھ صلہ رحمی کرنا واجب ہے، کیا وہ والد کی طرف سے ہوتے ہیں یا والدہ کی طرف سے یا بیوی کی طرف سے؟
الحمد للہ.
اول:
ایسے رشتہ دار جن کے ساتھ صلہ رحمی کرنا واجب ہے ان کی حد بندی کے متعلق اہل علم کے تین اقوال ہیں:
پہلا قول: ایسے رشتے جو محرم ہیں۔
دوسرا قول: ایسے رشتے جو وارث بنتے ہیں۔
تیسرا قول: نسب کی وجہ سے بننے والے رشتے چاہے وہ وارث بنیں یا نہ بنیں۔
اہل علم کے صحیح ترین موقف کے مطابق تیسرا قول صحیح ہے، یعنی وہ رشتے جو حقیقی والد یا والدہ کی جانب سے نسب کی وجہ سے بنتے ہیں رضاعی رشتے اس میں شامل نہیں۔
جبکہ بیوی کے رشتہ دار خاوند کے ارحام یعنی مذکورہ معنی میں رشتہ دار نہیں کہلاتے اور ایسے ہی خاوند کے رشتہ دار بیوی کے رشتہ دار نہیں کہلاتے۔
علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
رشتہ دار یعنی ارحام کون ہوتے ہیں؟ کیونکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بیوی کے رشتہ دار ارحام نہیں ہوتے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"ارحام وہ رشتہ دار ہوتے ہیں جو والدہ یا والد کی طرف سے نسب کی وجہ سے رشتہ دار بنیں، یہی رشتے اللہ تعالی کے سورت الانفال اور سورت الاحزاب میں حکم کے مقصود ہیں:
وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ
ترجمہ: اور اللہ تعالی کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔[الانفال: 75، الاحزاب: 6]
آیت میں مذکور رشتہ داروں میں قریب ترین یہ ہیں: باپ دادا، مائیں، نانیاں، دادیاں، بیٹے ، پوتے نیچے تک، پھر اس کے بعد قریب ترین رشتہ دار مثلاً: بھائی اور ان کی اولادیں، چچا اور پھوپھیاں اور ان کی اولادیں، ماموں اور خالائیں اور ان کی اولادیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے کہ جب ان سے کسی سوال کرنے والے نے پوچھا کہ : اللہ کے رسول میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنی والدہ کے ساتھ۔ اس نے پھر کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنی والدہ کے ساتھ۔ اس نے پھر کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنی والدہ کے ساتھ۔ اس نے پھر کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنے والد کے ساتھ اور پھر جو قریب ترین رشتہ دار ہو۔ اس حدیث کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے، اس حوالے سے احادیث کافی زیادہ ہیں۔
جبکہ بیوی کے رشتہ دار اگر خاوند کے رشتہ دار نہیں ہیں تو وہ خاوند کے ارحام نہیں ہیں ، ہاں وہ خاوند کی اولاد کے ارحام ہیں۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔" ختم شد
" فتاوى إسلامية " ( 4 / 195 )
لہذا میاں بیوی کے رشتہ دار ایک دوسرے کے لیے ارحام نہیں ہیں، لیکن پھر بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے؛ کیونکہ یہ میاں بیوی کے درمیان حسن معاشرت کا سبب بنتے ہیں، اور اس سے دونوں کے درمیان باہمی محبت اور الفت بڑھتی ہے۔
دوم:
صلہ رحمی متعدد طریقوں سے ہو سکتی ہے، مثلاً: ملاقات کے لیے جائیں، ان پر خرچ کریں، ان کے ساتھ حسن سلوک کریں، بیمار رشتہ داروں کی عیادت کریں، نیکی کا حکم دیں اور انہیں برائی سے روکیں، یا اسی طرح کے دیگر طریقے اپنائیں۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صلہ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا نام ہے ، یہ حسن سلوک دونوں رشتہ داروں کے مابین تعلق کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے چنانچہ کبھی مال کے ذریعے، تو کبھی کسی کام میں معاونت فراہم کر کے، کبھی ملاقات کر کے تو کبھی سلام کہہ کر، اس کے مزید طریقے بھی ہو سکتے ہیں۔" ختم شد
" شرح مسلم " ( 2 / 201 )
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صلہ رحمی اس طریقے سے ہو گی جو لوگوں کے ہاں متداول اور معروف ہو؛ کیونکہ کتاب و سنت میں صلہ رحمی کی نوعیت، صنف اور مقدار کا تعین نہیں کیا گیا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صلہ رحمی کو کسی معین چیز کے ساتھ مقید نہیں کیا ۔۔۔ بلکہ اسے مطلق رکھا ہے؛ اس لیے صلہ رحمی کے لیے عرف کو دیکھا جائے گا کہ جو چیز عرف میں صلہ رحمی ہے وہ صلہ رحمی کہلائے گا، اور جس چیز کو عرف میں قطع رحمی کہا جائے وہ قطع رحمی ہو گی۔" ختم شد
" شرح رياض الصالحين " ( 5 / 215 )
واللہ اعلم