اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

مکروہ اوقات میں کون سے نوافل پڑھنا جائز ہے؟

07-11-2023

سوال 81978

نماز کے لیے مکروہ اوقات کون سے ہیں؟ اور کیا مکروہ اوقات میں نماز کی سنتیں ادا کر سکتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مختصر طور پر دیکھیں تو نماز کے لیے مکروہ اوقات تین ہیں، اور اگر تفصیلی طور پر دیکھیں تو پانچ بنتے ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

اور اگر مختصراً دیکھیں تو یہ ہیں:

ان اوقات کے دلائل کے لیے آپ سوال نمبر: 48998 کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

دوم:

ان اوقات میں نفل نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے، جبکہ موجودہ وقت کی فرض نماز ، یا فوت شدہ فرض نماز کی قضا تو اس کے لیے کوئی ممانعت کا وقت نہیں ہے۔

"بنیادی طور پر اصول یہ ہے کہ نفل نماز ہمیشہ کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے [رکوع و سجدے کا حکم دیتے ہوئے ] وقت متعین نہیں کیا عام ہی رکھا ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرو، اور اپنے رب کی عبادت کرو، اور بھلائی کے کام کرتے رہو، تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔ [الحج: 77] "

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی کو بھی نمازیں ادا کرنے کا عام حکم دیا تھا جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی کام کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (مانگو) اس نے کہا تھا: مجھے جنت میں آپ کی رفاقت چاہیے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس کے علاوہ کچھ اور؟) تو اس نے کہا: بس یہی ہے، یعنی میں آپ سے کسی اور خواہش کا طلب گار نہیں ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا تھا کہ: (تم کثرت کے ساتھ نوافل ادا کر کے اپنے بارے میں میری مدد کرو)

اس بنا پر: نفل نماز مقیم اور مسافر دونوں کے لیے کسی بھی وقت ادا کرنا جائز ہے، تاہم کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں شریعت نے نماز کی ادائیگی سے روک دیا ہے، اور یہ ٹوٹل پانچ اوقات ہیں۔۔۔" ختم شد
"الشرح الممتع" از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ

سوم:

فقہائے کرام نے کچھ ایسے نوافل کو مستثنی قرار دیا ہے جو ممانعت کے وقت بھی پڑھے جا سکتے ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

1-طواف کی دو رکعات، اس کی دلیل جامع ترمذی: (868) ، نسائی: (2924) ، ابو داود: (1894) اور ابن ماجہ: (1254) میں ہے کہ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے بنی عبد مناف! تم دن ہو یا رات کسی بھی وقت میں بیت اللہ کا طواف کرنے اور یہاں نماز پڑھنے سے کسی کو بھی مت روکو) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

2- جماعت میں دوسری بار شامل ہونا۔ یعنی ایک شخص نے فرض نماز ادا کر لی اور پھر وہ مسجد میں آیا تو لوگ ابھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو یہ شخص ان کے ساتھ جماعت میں شامل ہو جائے گا چاہے یہ ممانعت کا وقت ہی کیوں نہ ہو، اور ان کے ساتھ اس کی نماز نفل ہو گی، اس کی دلیل ترمذی: (219) اور نسائی: (858) میں یزید بن اسود عامری سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دو آدمیوں کو کہا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ با جماعت نماز اس لیے ادا نہیں کی تھی کہ انہوں نے اپنے گھروں میں نماز ادا کر لی تھی کہ: (جب تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو اور پھر مسجد میں آؤ اور یہاں جماعت کھڑی ہو تو تم ان کے ساتھ نماز ادا کرو؛ یہ تمہارے لیے نفل ہو گی) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

3- سنت مؤکدہ کی ادائیگی ۔ انسان سنت مؤکدہ پڑھنا بھول جائے اور ممانعت کا وقت شروع ہو جائے تو تب بھی یہ سنتیں ادا کی جا سکتی ہیں۔ ایسے ہی ظہر اور عصر کو جمع کرنے کی صورت میں ظہر کے بعد والی سنتیں عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ادا کی جا سکتی ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کے بعد والی سنتیں مشغولیت کی وجہ سے ادا نہیں کر سکے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ سنتیں عصر کے بعد ادا کی تھیں۔ اس واقعہ کو بخاری: (1233) اور مسلم: (834) نے روایت کیا ہے۔

4- جمعہ کے دن خطیب خطبہ دے رہا ہو اور کوئی شخص آئے تو وہ دو مختصر رکعات پڑھ کر بیٹھے، اس کی دلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا تم نے نماز ادا کی ہے؟) تو اس نے کہا: نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کرو) اس حدیث کو بخاری: (931) اور مسلم: (875) نے روایت کیا ہے۔

5- نماز جنازہ کی ادائیگی ممانعت کے صرف لمبے اوقات میں کی جا سکتی ہے اس پر سب لوگوں کا اجماع ہے یعنی طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک، اور عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/425)میں کہتے ہیں:
"نماز جنازہ طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک، اور عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے کے لیے مائل ہونے کے دوران ادا کرنا بلا اختلاف جائز ہے۔ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: مسلمانوں کا اجماع ہے کہ عصر اور فجر کے بعد نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں۔

جبکہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق بقیہ تینوں اوقات میں نماز جنازہ کی ادائیگی جائز نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ: (تین گھڑیاں ایسی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں ان اوقات میں نماز ادا کرنے سے اور اس وقت میں مردوں کو دفنانے سے روکا کرتے تھے)یہاں مردوں کی تدفین کا تذکرہ نماز کے ساتھ ملا کر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں نماز جنازہ مراد ہے۔
امام اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: میں نے ابو عبد اللہ امام احمد سے سورج طلوع ہونے کے دوران نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے کہا: دورانِ طلوعِ آفتاب تو مجھے اچھا نہیں لگتا، اور پھر اس کے لیے سیدنا عقبہ بن عامر کی روایت پیش کی، یہی روایت سیدنا جابر سے بھی مروی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسا ہی موقف منقول ہے، ان کا موقف امام مالک نے اپنی مؤطا میں نقل کیا ہے۔ علامہ خطابی کہتے ہیں: یہی موقف اکثر اہل علم کا ہے۔

نماز فجر اور عصر کے بعد جنازے کی اجازت اس لیے دی کہ یہ دونوں اوقات قدرے لمبے ہیں، اور جنازے کے لیے معمولی سا وقت چاہیے ہوتا ہے ۔" مختصراً ختم شد

چہارم:

فقہائے کرام کا کچھ نوافل کی ادائیگی کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا انہیں ممنوعہ اوقات میں ادا کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ان نوافل میں سببی نمازیں شامل ہیں جیسے کہ تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو ، چنانچہ کچھ اہل علم انہیں ممانعت کے وقت میں ادا کرنا جائز کہتے ہیں، یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے اور اسی کو متعدد اہل علم نے اختیار کیا ہے اور یہی راجح ہے۔ جبکہ کچھ اہل علم سببی نماز ممانعت کے وقت میں ادا کرنا منع قرار دیتے ہیں، اور وہ مطلق نفل اور سببی نفل میں فرق نہیں کرتے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (48998 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

نفل نماز
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔