"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
انسان كو چاہيے كہ سفر پر جانے ـ چاہے سفر حج كا ہو يا كوئى اور ـ سے قبل قرض كى ادائيگى كر دے، يا پھر اتنى رقم چھوڑ كر جائے جو اس كى ادائيگى كے ليے كافى ہو، حتى كہ وہ اس سے برى الذمہ ہو سكے، اور اللہ كے ہاں حقوق العباد ميں سے كوئى مطالبہ نہ رہے.
رہا مقروض شخص كا حج كے ليے سفر كرنا تو اس سلسلے ميں گزارش ہے كہ قرض كى تين اقسام ہيں:
پہلى قسم:
قرض غير مؤجل: اور اس قرض كى ادائيگى كا وقت آ چكا ہو اور قرض خواہ قرض كى ادائيگى كا مطالبہ كرے، تو اس قرض كى ادائيگى واجب ہے حج وغيرہ كى بنا پر اس ميں تاخير كرنى جائز نہيں، كيونكہ يہ ادائيگى ميں ٹال مٹول كرنے ميں شامل ہوتا ہے جو كہ حرام ہے.
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ادائيگى كى استطاع ركھنے والے شخص كا ادائيگى ميں ٹال مٹول سے كام لينا ظلم ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر( 2287 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 1564 ).
اور ايك دوسرى روايت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قرض كى ادائيگى پر قادر شخص كا ليت و لعل اور ٹال مٹول سے كام لينا اس كى عزت اور سزا حلال كر ديتا ہے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 4689 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3628 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2427 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
" لى الواجد " مطل الغنى كے معنى ميں ہى ہے: اور قرض كى ادائيگى كى استطاعت اور قدرت ركھنے والے شخص كا بغير كسى عذر كے ادائيگى ميں ٹال مٹول اور ليت و لعل سے كام لينے كا نام ہے.
اس كى عزت حلال ہونے كا مقصد يہ ہے كہ: قرض خواہ شخص يہ كہہ سكتا ہے كہ فلاں شخص نے مجھ پر ظلم اور زيادتى كى ہے، اور قرض ادا كرنے ميں ٹال مٹول كر رہا ہے، اور سزا سے مراد اسے قيد كرنا ہے.
اگر فرض كريں كہ اس قرض كى ادائيگى سے حج كى عدم ادائيگى ہوتى ہو تو بھى اس قرض كو ادا كرنا واجب ہے، اور اس وقت حج ترك كرنے ميں كوئى گناہ نہيں؛ كيونكہ حج تو مالى اور بدنى استطاعت ركھنے والے پر فرض ہوتا ہے.
دوسرى قسم:
ايسا قرض جس ميں قرض خواہ اجازت دے اور تاخير سے ادائيگى پر راضى ہو، اور مقروض شخص كو حج كرنے كى اجازت ديتے ہوں.
اس ميں كوئى اشكال نہيں، ليكن پھر بھى قرض كى ادائيگى افضل ہے تا كہ وہ اس سے برى الذمہ ہو سكے؛ كيونكہ اگرچہ قرض خواہ مقروض شخص كو حج كى اجازت دے بھى دے تو پھر بھى وہ قرض مقروض كے ذمہ باقى رہتا ہے اور وہ اس اجازت سے برى الذمہ نہيں ہو جاتا.
اسى ليے مقروض شخص كو كہا جائيگا كہ: پہلے قرض ادا كرو، اور ادائيگى كے بعد اگر اتنى رقم باقى بچ جائے كہ آپ حج كر سكيں تو آپ حج كر ليں وگرنہ آپ پر حج فرض نہيں.
اور اگر مقروض شخص جسے قرض كى ادائيگى نے حج كى ادائيگى سے روك ديا تھا فوت ہو جائے تو وہ مكمل اسلام كى حالت ميں اپنے رب سے ملے گا، اس ميں كوتاہى نہيں كيونكہ اس پر حج فرض ہى نہيں تھا.
ليكن اگر وہ حج كو قرض كى ادائيگى پر مقدم كرتا ہوا حج كر كے قرض ادا كيے بغير فوت ہو جاتا ہے تو خطرہ سے دوچار ہو سكتا ہے، كيونكہ قرض ايك ايسى چيز ہے جو شہيد كو بھى معاف نہيں ہوتا، باقى ہر چيز معاف كر دى جاتى ہے، تو پھر شہيد كے علاوہ كسى اور كى حالت كيا ہو گى ؟!
تيسرى قسم:
دين مؤجل: يعنى وہ قرض جس كى ادائيگى كا وقت حج كے موسم ميں نہ ہو، تو اس مقروض شخص كو حج كى ادائيگى سے نہيں روكا جائيگا، ليكن اگر اسے يہ علم ہو كہ حج كى ادائيگى سے اس كے قرض كى ادائيگى ميں ركاوٹ پيدا ہو گى، وہ اس طرح كہ يا تو قرض كى ادائيگى كا وقت نزديك ہو، يا پھر اس كى آمدنى كم ہو يا كوئى سبب تو اگر يہ شخص حج كى ادائيگى كرتا ہے تو يہ مفرط اور كوتاہى كا شكار ہوگا، اور اپنے اوپر قرض كى ادائيگى ميں كوتاہى كرنے والا سمجھا جائيگا.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
حج كى شرائط ميں استطاعت بھى شامل ہے، اور استطاعت ميں مالى استطاعت بھى آتى ہے، جس شخص پر قرض ہو اور اس سے قرض كى ادائيگى كا مطالبہ بھى اس طرح ہو كہ قرض خواہ مقروض شخص كو حج كى ادائيگى سے منع كريں، كہ وہ قرض ادا كيے بغير حج نہيں كر سكتا، تو وہ شخص حج نہ كرے كيونكہ وہ صاحب استطاعت نہيں.
اور اگر اس سے قرض كى ادائيگى كا مطالبہ نہيں بلكہ ابھى قرض كى ادائيگى كا وقت نہيں آيا، اور قرض خواہ كى طرف سے يہ معلوم ہو كہ وہ اسے اجازت ديتے ہيں، تو وہ حج كر سكتا ہے، اور اس شخص كا حج صحيح ہو گا، اور اسى طرح اگر كسى مقروض شخص كے قرض كى ادائيگى كے وقت كى تحديد نہ ہو، بلكہ جب چاہے قرض ادا كر دے تو اس كے ليے بھى حج كرنا جائز ہے، اور ايسا بھى ہو سكتا ہے كہ حج كرنا اس كے قرض كى ادائيگى ميں ميں بہتر ثابت ہو. انتہى.
واللہ اعلم.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 46 ).
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ بجلى اور ٹيلى فون وغيرہ كا بل بھى قرض مؤجل ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے كہ بل كى ادائيگى كى تاريخ مقرر ہوتى ہے، بعض اوقات تو ادائيگى كے ليے ايك ماہ كا وقت ديا جاتا ہے، چنانچہ اگر انسان حج كر كے واپس آ كر بل كى ادائيگى كرسكتا ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر بل كى ادائيگى كى تاريخ حج سے واپس آنے سے قبل ختم ہو رہى ہو تو پھر پہلے اسے بل كى ادائيگى كرنى چاہيے، اور پھر اگر اس كے پاس اتنى رقم بچے كہ اس سے حج كر سكتا ہو تو الحمد للہ وہ حج كر لے، اور اگر اتنى رقم نہ رہے تو پھر حج كو مؤخر كر دے حتى كہ اللہ تعالى اس كے ليے آسانى پيدا كر دے.
واللہ اعلم .