"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر تين سے زيادہ فتوے پڑھے ہيں جن ميں بالوں كو سياہ كرنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، سارى كلام سفي بالوں كو سياہ كرنے، يا پھر سياہ بالوں كے متعلق تھى، تو كيا اگر عورت اپنے گھر ميں خوبصورتى كى غرض سے بال سياہ كرے تو بھى حرام ہے ؟
ميں نے سنا ہے كہ اگر زينت و خوبصورتى كے ليے ہو تو اس كا حكم مختلف ہے، آپ سے گزارش ہے كہ ميرے سوال كا جواب ضرور ديں تا كہ ميرا دل ہميشہ كے ليے مطمئن ہو جائے، ان شاء اللہ ؟
الحمد للہ.
اول:
كئى ايك جواب ميں مردوں اور عورتوں كے ليے بالوں كو سياہ كرنے كے حكم كا بيان پايا جاتا ہے، جيسا آپ نے بيان بھى كيا ہے، آپ سوال نمبر ( 7227 ) اور ( 476 ) اور ( 1008 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
مردوں كا اپنے بالوں كو سياہ كرنا علماء كے ہاں اختلافى مسائل ميں شمار ہوتا ہے، مندرجہ بالا سوالات كے جوابات ميں ہم دلائل بيان كر چكے ہيں جن سے قطعى طور پر مردوں كے ليے بال سياہ كرنا حرام ہيں.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ ممانعت مردوں كے ساتھ خاص ہے عورتيں اس ميں شامل نہيں.
ليكن صحيح عموم ہى ہے، اور مندرجہ بالا سوالات كے جوابات ميں اس كا بيان بھى موجود ہے.
جنہوں نے عورت كو اپنے خاوند كے ليے خوبصورتى كے ليے بال سياہ كرنے كو مباح قرار ديا ہے ان كے كئى ايك اعتبارات ہيں، ان ميں سے كچھ نے تو اسے ـ اصل ميں ـ مردوں كے ليے مباح قرار ديا ہے، اور اس اعتبار سے عورتوں كے ليے بھى استعمال كرنے ميں كوئى اشكال نہيں رہتا، اور كچھ نے مثلا شافعى حضرات ميں سے الحليمى نے صرف مردوں كے ليے ممانعت كا كہا ہے.
ليكن بعض اہل علم جو اس ممانعت كو عمومى نہى قرار ديتے ہيں انہوں نے عورت كو اپنے خاوند كےليے بال سياہ كرنے كى اجازت دى ہے، اور ان كا كہنا ہے: عورت اس صورت ميں روكا اور منع كيا جائيگا جب اس ميں دھوكہ اور تدليس پائى جائے، اور يہ اس وقت ہے جب عورت اپنے خاوند كے ليے بال سياہ نہ كرے، بلكہ كسى اور مقصد كے ليے، ان ميں اسحاق بن راہويہ رحمہ اللہ شامل ہيں.
عون المعبود كے مصنف لكھتے ہيں:
" اكثر علماء كرام سياہ خضاب لگانے كو مكرہ قرار ديتے ہيں، اور امام نووى رحمہ اللہ كا ميلان كراہت تحريمى كى طرف ہے، اور كچھ علماء كرام نے جھاد ميں بال سياہ كرنے كى رخصت دى ہے، اس كے علاوہ نہيں، اور كچھ علماء نے مرد اور عورت ميں فرق كيا ہے، عورت كو اجازت دى ہے، مرد كو نہيں، اسے حليمى نےاختيار كيا ہے. انتہى.
ديكھيں: عون المعبود شرح ابو داود ( 11 / 178 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اس ميں ـ يعنى بالوں كو سياہ خضاب لگانے ـ اسحاق رحمہ نے عورت كو اپنے خاوند كے ليے خوبصورتى اختيار كرنے كے ليے اجازت دى ہے "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 150 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اس ميں ـ يعنى سياہ خضاب كى ـ دوسروں نے بھى عورت كو اجازت دى ہے كہ وہ اپنے خاوند كے ليے اس كے ساتھ خوبصورتى اور زينت حاصل كر سكتى ہے.
اور يہ قول اسحاق بن راہويہ كا ہے، شائد ان كى رائے يہ ہے كہ ممانعت اور نہى صرف مردوں كے حق ميں ہے، اور عورت كے ليے ہاتھوں اور پاؤں كو مہندى اور خضاب لگانے كى اجازت دى گئى ہے جو كہ مرد كو نہيں دى گئى.
ديكھيں: حاشيۃ ابن القيم على تھذيب سنن ابى داود ( 11 / 173 ).
اور صحيح يہى ہے كہ بال سياہ كرنے كى ممانعت مرد و عورت سب كے ليے عام ہے، اور تدليس و دھوكہ دينے اور چھپاؤ كے ليے بال سياہ نہيں كرنے جائز نہيں، اس كى ممانعت اور نہى تحريمى ہے، ليكن اگر عورت كا مقصد اپنے خاوند كے ليے خوبصورتى و زينت اختيار كرنا ہو تو بھى اولى اور بہتر يہى ہے كہ وہ اس سے اجتناب كرے.
ہم نے سوال نمبر ( 47652 ) كے جواب كہا ہے كہ:
اولى اور احتياط اسى ميں ہے كہ حديث كے الفاظ كا خيال اور اس پر عمل كرتے ہوئے اس سے اجتناب كيا جائے، خاص كر مذكورہ علت ـ دھوكہ اور چھپاؤ ـ استنباط كردہ ہے، جسے بعض علماء كرام نے استنباط كيا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بالنص يہ بيان نہيں فرمائى. انتہى.
واللہ اعلم .