"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جى ہاں عورت كے ليے اپنى آنكھيں ننگى ركھنا جائز ہيں، تا كہ وہ ديكھ سكے، اور مردوں كے ليے عورت كى آنكھوں كى جانب ديكھنا جائز نہيں.
شيخ عبد اللہ بن حميد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر برقع سارے چہرے كو ڈھانپ كر ركھے اور صرف ايك آنكھ ہى ظاہر ہو تو اسميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وہ سارا چہرہ نہيں ڈھانپتا.... بلكہ منہ ڈھانپا ہو اور باقى چہرہ كھلا ہو تو يہ جائز نہيں، اور خاص كر غير محرم اور اجنبى مردوں كى موجودگى ميں....
چنانچہ سارے چہرے كو ڈھانپنا ضرورى ہے، اور صرف ايك آنكھ راہ ديكھنے كے ليے نكالى جا سكتى ہے، جيسا كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ اور عبيدہ السلمانى وغيرہ كا قول ہے "
واللہ تعالى اعلم.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 393 - 394 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" نقاب با برقع كے ساتھ جس ميں صرف آنكھوں كے ليے دو سوراخ ہوں چہرہ ڈھانپنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى يہ چيز معروف تھے، اور صرف ضرورت كى بنا پر ايسا ہے، اور اگر صرف دونوں آنكھوں كے علاوہ كچھ ظاہر نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر جب عورت كا اپنے معاشرہ ميں يہ برقع اور نقاب پہننا عادت ہو "
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 399 ).
ليكن ايك چيز پرتنبيہ كرنى ضرورى ہے، وہ يہ كہ اب اكثر عورتيں صرف آنكھيں ننگى ركھنے تك ہى محدود نہيں ركھتيں، بلكہ وہ اس سے تجاوز كرتے ہوئے پيشانى اور ناك كا كچھ حصہ بھى ننگا ركھنے لگى ہيں، تو اس طرح جائز جگہ سے ايسى جگہ تجاوز كر ليا گيا ہے جس كا ننگا كرنا جائز نہيں، اس ليے بعض علماء كرام ـ مثلا شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ ـ نے برقع اور نقاب پہننے سےمنع كيا ہے، كيونكہ اس ميں عورتيں تساہل كرنے لگى ہيں "
واللہ اعلم .