اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

اذان كى ابتدا كب ہوئى ؟

13-11-2006

سوال 9476

ميں نے سنا ہے كہ نماز كے ليے اسلامى اذان ابراہيم عليہ السلام كے دور سے ہى معروف چلى آرہى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا ہے:
اور آپ لوگوں ميں حج كا اعلان كر ديں. كيا يہ بات صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بعض لوگوں نے واقعى ايسى بات كى ہے، بلكہ بعض تو يہاں تك كہتے ہيں كہ آدم عليہ السلام كے زمين پر آنے كے وقت سے ہى انبياء عليہم السلام كے ہاں اذان معروف تھى، اور بعض لوگ يہ كہتے ہيں كہ ابراہيم عليہ السلام كے ہاں يہ اس وقت معروف ہوئى جب اللہ تعالى نے انہيں حكم ديا:

اور آپ لوگوں ميں حج كا اعلان كرديں، وہ تيرے پاس پيدل اور ہر سوارى پر آئينگے الحج ( 26 ).

ليكن يہ كلام عجيب بلكہ صحيح نہيں، بلكہ صحيح بات يہ ہے كہ:

اذان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مدينہ شريف ميں مشروع ہوئى نہ كہ مكہ ميں، اور نہ ہى معراج كے موقع پر جيسا كہ بعض ضعيف احاديث ميں پايا جاتا ہے.

ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اذان كى ابتدا كے سلسلے ميں سب سے زيادہ عجيب وہ ہے جسے ابو الشيخ نے عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" اذان ابراہيم عليہ السلام كى اذان " اور آپ لوگوں ميں حج كا اعلان كر ديں " سے لى گئى، وہ كہتے ہيں كہ چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اذان كہى "

اس سند ميں مجھول راوى پايا جاتا ہے.

ديكھيں: فتح البارى لابن حجر ( 2 / 280 ).

صحيح احاديث سے پتہ چلتا ہے كہ اذان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں مدينہ شريف ميں مشروع ہوئى، ذيل ميں چند ايك صحيح احاديث پيش كى جاتى ہيں:

نافع بيان كرتے ہيں كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى كہا كرتے تھے: جب مسلمان مدينہ آئے تو وہ نماز كے ليے جمع ہوا كرتے تھے، اور نماز كے ليے اذان نہيں ہوتى تھى، چنانچہ اس سلسلہ ميں ايك روز انہوں نے بات چيت كى تو كچھ لوگ كہنے لگے عيسائيوں كى طرح ناقوس بنا ليا جائے، اور بعض كہنے لگے: يہوديوں كے سينگ كى طرح كا بگل بنا ليا جائے.

چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: تم كسى شخص كو كيوں نہيں مقرر كرتے كہ وہ نماز كے ليے منادى كرے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: بلال اٹھ كر نماز كے ليے منادى كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 569 ).

اور ابن عمير بن انس اپنے ايك انصارى چچا سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ مسئلہ درپيش آيا كہ لوگوں كو نماز كے ليے كيسے جمع كيا جائے؟ كسى نے كہا كہ نماز كا وقت ہونے پر جھنڈا نصب كر ديا جائے جب وہ اسے ديكھيں گے تو ايك دوسرے كو بتا دينگے، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ طريقہ پسند نہ آيا.

راوى بيان كرتے ہيں كہ بگل كا ذكر ہوا، زياد كہتے ہيں كہ يہوديوں والا بگل چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ بھى پسند نہ آيا، اور فرمايا يہ تو يہوديوں كا طريقہ ہے، راوى كہتے ہيں چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ كے سامنے ناقوس كا ذكر ہوا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ تو عيسائيوں كا طريقہ ہے.

چنانچہ عبد اللہ بن زيد بن عبد ربہ وہاں سے نكلے تو انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اسى معاملہ كى فكر كھائے جارہى تھى اور وہ اسى سوچ ميں غرق تھے، چنانچہ انہيں خواب ميں اذان دكھائى گئى، راوى كہتے ہيں جب وہ صبح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے تو انہيں اپنى خواب بيان كرتے ہوئے كہنے لگے:

ميں اپنى نيند اور بيدارى كى درميان والى حالت ميں تھا كہ ايك شخص آيا اور مجھے اذان سكھائى، راوى كہتے ہيں: اس سے قبل عمر رضى اللہ تعالى عنہ بھى يہ خواب ديكھ چكے تھے، ليكن انہوں نے اسے بيس روز تك چھپائے ركھا اور بيان نہ كيا.

راوى كہتے ہيں: پھر انہوں نے بھى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اپنى خواب بيان كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: تمہيں خواب بيان كرنے سے كس چيز نے منع كيا تھا ؟ توانہوں نے جواب ديا عبد اللہ بن زيد مجھ سے سبقت لے گئے تو ميں نے بيان كرنے سے شرم محسوس كى چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

بلال اٹھو اور ديكھو تمہيں عبد اللہ بن زيد كيا كہتے ہيں تم بھى اسى طرح كرو، چنانچہ بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے اذان كہى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 420 ).

عبد اللہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو نماز كے وقت جمع كرنے كے ليے ناقوس بنانے كا حكم ديا تو ميرے پاس خواب ميں ايك شخص آيا جس كے ہاتھ ميں ناقوس تھا ميں نے كہا: اے اللہ كے بندے كيا تم يہ ناقوس فروخت كروگے ؟

تو اس نے جواب ديا: تم اسے خريد كر كيا كرو گے ؟ ميں نے جواب ديا: ہم اس كے ساتھ نماز كے ليے بلايا كرينگے، تو وہ كہنے لگا: كيا ميں اس سے بھى بہتر چيز تمہيں نہ بتاؤں ؟

تو ميں نے اس سے كہا: كيوں نہيں، وہ كہنے لگا:

تم يہ كہا كرو:

" اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

َأشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )

أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )

أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )

أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )

حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ ( نماز كى طرف آؤ )

حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ ( نماز كى طرف آؤ )

حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )

حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )

اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )

راوى بيان كرتے ہيں: پھر وہ كچھ ہى دور گيا اور كہنے لگا:

اور جب تم نماز كى اقامت كہو تو يہ كلمات كہنا:

" اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

َأشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )

أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )

حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ ( نماز كى طرف آؤ )

حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )

قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )

قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )

اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )

لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں ).

عبد اللہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں چنانچہ جب صبح ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گيا تو اپنى خواب بيان كى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ان شاء اللہ يہ خواب حق ہے، تم بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑے ہو كر اسے اپنى خواب بيان كرو، اور وہ اذان كہے، كيونكہ اس كى آواز تم سے زيادہ بلند ہے.

چنانچہ ميں بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑا ہوا اور انہيں كلمات بتاتا رہا اور وہ ان كلمات كے ساتھ اذان دينے لگے، جب عمر رضى اللہ تعالى نے يہ اپنے گھر ميں سنے تو وہ اپنى چادر كھينچتے ہوئے چلے آئے اور كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق دے كر مبعوث كيا ہے، ميں نے بھى اسى طرح كى خواب ديكھى ہے چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: الحمد للہ "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 499 ).

يہ اس بات كى دليل ہيں كہ اذان كى ابتد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مدنى دور يعنى مدينہ منورہ ميں مشروع ہوئى، اور يہ اس امت مسلمہ كى ايك فضيلت شمار ہوتى ہے جسے اللہ تعالى نے سارى امتوں پر فضيلت دى ہے.

واللہ اعلم .

اذان
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔