"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اگر اس چپکنے والے مادے کو غسل کے وقت اتارنا ممکن ہو اور پھر اس کے نیچے والے بدن کے حصے کو بغیر کسی نقصان کے دھونا ممکن ہو تو ایسا کرنا واجب ہے، ایسی صورت میں سوئی پر مسح کرنا جائز نہیں ہو گا۔
لیکن اگر چپکنے والے مادے کو اتارنے سے نقصان ہو تو پھر اس پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد کہتے ہیں: اگر وضو کرے اور اپنے زخم پر پانی لگنے سے زخم کے بگڑنے کا
خدشہ ہو تو پٹی پر مسح کر لے۔۔۔
اسی طرح اگر زخم پر دوائی لگی ہوئی ہے اور دوا ہٹا کر اس پر مسح کرنے سے نقصان کا
خدشہ ہو تو اس پر مسح کر لے، امام احمد نے اس کی صراحت کے ساتھ اجازت دی ہے۔ اثرم
رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: میں نے ابو عبد اللہ سے سوال پوچھا: ایک آدمی کو زخم لگ
گیا ہے اس نے اس پر دوائی لگائی ہوئی ہے، اب اسے خدشہ ہے کہ اگر وضو کرتے ہوئے دوا
ہٹاتا ہے تو اس سے نقصان ہو گا، اس پر امام احمد نے کہا: مجھے یہ تو معلوم نہیں ہے
کہ اسے کیا نقصان ہو سکتا ہے، البتہ اگر اسے اپنے متعلق خدشات ہوں تو اس پر مسح کر
لے۔۔۔
قاضی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر زخم پر چپکائی جانے والی پٹیوں کو اتارنے سے کوئی
نقصان نہ ہو تو انہیں اتار کر وضو کرے۔۔۔ اور اگر انہیں اتارنے سے نقصان ہو تو پھر
اس کا حکم بھی باندھنے والی پٹی کا ہوگا، اور اس پر مسح کرے گا" انتہی
"المغنی" (1/172)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ایسے امام کا کیا حکم ہے جو لوگوں کی جماعت کروائے اور اسے زخم لگا ہوا ہو؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر زخم پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو وہ وضو اور غسل کے وقت اس پر مسح کرے گا اور یہ
اس کیلیے کافی ہے، اس حالت میں اس کی نماز بھی درست ہو گی، چاہے وہ امام ہو یا
مقتدی یا منفرد، اور اگر اس پر پٹی نہ بندھی ہوئی ہو تو پھر اپنے صحیح سالم اعضا
دھونے کے بعد زخمی عضو کی طرف سے تیمم کر لے گا، اس طرح یہ اس کیلیے کافی ہو گا
اور اس کی نماز بھی درست ہو گی؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ )ترجمہ: اپنی استطاعت کے مطابق تقوی الہی
اختیار کرو
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جن صحابہ کرام کو جنگ احد میں زخم آئے
تھے انہوں نے اپنے زخموں کے ساتھ ہی نمازیں ادا کی تھیں۔
اسی طرح ابو داود رحمہ اللہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ : ایک آدمی کو
زخم لگ گیا جس پر اس کے کچھ ساتھیوں نے اسے غسل کا فتوی دے دیا ، اور وہ غسل کی وجہ
سے فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انہوں نے اسے قتل کر
دیا، اللہ انہیں ہلاک کرے، اگر انہیں معلوم نہیں تھا تو پوچھا کیوں نہیں؟ لا علمی
کی شفا پوچھ لینے میں ہوتی ہے) پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے
تو اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اور اس پر مسح کر کے اپنے بقیہ
جسم کو دھو لیتا)"انتہی
"فتاوى شیخ ابن باز (10/119)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو شفائے کاملہ نصیب فرمائے۔
واللہ اعلم.