"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ايك شخص كا عورت سے نكاح ہو چكا ہے، ليكن ابھى اس كى رخصتى نہيں ہوئى تو كيا ا سكا فطرانہ خاوند كے ذمہ ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
علماء كرام رحمہم اللہ كا اس ميں اختلاف ہے كہ: آيا جن افراد كا خرچ مرد كے ذمہ ہے ان كے فطرانہ كى ادائيگى بھى اسى كے ذمہ ہو گى يا نہيں ؟
اس ميں دو قول ہيں:
پہلا قول:
انسان پر لازم ہے كہ وہ اپنى جانب سے بھى اور جن افراد كا خرچ اس كے ذمہ ہے اور وہ ان پر خرچ كرتا ہے ان فطرانہ بھى ادا كرے، مثلا بيوى اور اولاد. حنابلہ كا مسلك يہى ہے.
انہوں نے دار قطنى اور بيھقى كى درج ذيل روايت سے استدلال كيا ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جن پر تم خرچ كرتے ہو ان كا فطرانہ بھى ادا كرو "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے، دارقطنى، بيھقى، ابن العربى، ذھبى، نووى، اور ابن حجر وغيرہ نے اس حديث كو ضعيف كہا ہے.
ديكھيں: المجموع ( 6 / 113 ) اور تلخيص الحبير ( 2 / 771 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے، كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا اگر خاوند اور بيوى كے درميان شديد قسم كا نزاع ہو تو بيوى كا فطرانہ خاوند كے ذمہ ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" انسان پر اپنى اور ہر اس شخص كى جانب سے جس كے خرچ كا وہ ذمہ دار ہے اور ان كا خرچ اس پر واجب ہوان كا فطرانہ ادا كرنا لازم ہے، اور ان ميں بيوى بھى شامل ہوتى ہے، كيونكہ بيوى كا خرچہ بھى خاوند پر واجب ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 9 / 367 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے:
" دوسرا قول:
اپنے علاوہ كسى اور كا فطرانہ دينا لازم نہيں، احناف كا مسلك يہى ہے، اور انہوں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى اس حديث سے استدلال كيا ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بطور فطرانہ ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو ہر مسلمان غلام اور آزاد مرد و عورت چھوٹے اور بڑے پر فرض كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1503 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 984 ).
تو اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: ہر ايك مسلمان شخص پر فطرانہ واجب ہے، اور اصل يہ ہے كہ جسے واجب كے ساتھ مخاطب كيا جائے وہ اسى شخص پر واجب ہوتا ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 14 / 197 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اس قول كو اختيار كرتے ہوئے كہا ہے:
صحيح تو يہى ہے كہ انسان كا اپنى جانب سے ہى فطرانہ ادا كرنا واجب ہے، اور بيوى پر اپنا فطرانہ خود ادا كرنا واجب ہوگا، اور باپ پر اپنا فطرانہ خود ادا كرنا، اور بيٹى پر اپنا، اس شخص پر نہيں جو بيوى اور رشتہ داروں پر خرچ كرتا ہے، اور اس ليے بھى كہ فرض ميں اصل يہ ہے كہ وہ ہر ايك پر بعينہ فرض ہوتا ہے نہ كہ كسى دوسرے پر. انتہى بتصرف.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 154 ).
دوم:
خاوند كے ذمہ بيوى كا فطرانہ اس وقت لازم ہو گا جب وہ بيوى پر خرچ كرتا ہو، اور يہ تو معلوم ہے كہ بيوى كا نفقہ اور خرچ اس وقت خاوند كے ذمہ واجب ہوتا ہے جب بيوى اپنے آپ كو خاوند كے سپرد كر دے، اور اسے اپنے ساتھ تعلقات قائم كرنے دے، ليكن اگر بيوى ابھى تك اپنے باپ كے گھر ميں ہو، تو اس كا خرچ خاوند كے ذمہ نہيں، اور اسى طرح فطرانہ بھى خاوند كے ذمہ نہيں ہو گا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ہر وہ عورت جس كا خرچ اورنفقہ خاوند پر لازم نہيں مثلا جس عورت كى رخصتى نہيں ہوئى اور خاوند كے سپرد نہيں كى گئى، اور وہ چھوٹى عمر كى بچى جس سے استمتاع كرنا ممكن نہيں، تو اس كا خرچ خاوند كے ذمہ لازم نہيں، اور نہ ہى ا سكا فطرانہ خاوند كے ذمہ ہے، كيونكہ وہ ان ميں شامل نہيں ہوتى جن كى معونت خاوند كے ذمہ ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ( 2 / 361 ).
اور بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جس كا نفقہ خاوند كے ذمہ لازم نہيں ان كا فطرانہ بھى خاوند پر لازم نہيں آتا، مثلا وہ بيوى جس سے دخول نہيں ہوا اور اس نے اپنا آپ خاوند كے سپرد نہيں كيا " انتہى بتصرف.
ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 252 ).
واللہ اعلم .