"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اگر آدمى اپنى بيوى كو دخول سے قبل طلاق دے دے تو اس ميں رجوع نہيں ہو سكتا، كيونكہ رجوع تو عدت كے دوران ہوتا ہے، اور دخول سے قبل طلاق دي گئى عورت پر كوئى عدت نہيں ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو اور انہيں چھونے سے قبل ( جماع سے قبل ) طلاق دے دو تو تمہارے ليے ان پر كوئى عدت نہيں جسے وہ عدت گزاريں الاحزاب ( 49 ).
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل علم اس پر متفق ہيں كہ جس عورت سے دخول نہ كيا گيا ہو اسے ايك طلاق دينے سے ہى طلاق بائن ہو جاتى ہے، اور طلاق دينے والے كو اس سے رجوع كا حق حاصل نہيں؛ اس ليے كہ رجوع تو عدت ميں كيا جا سكتا ہے اور دخول سے قبل كوئى عدت نہيں ہے.
اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كر اور پھر انہيں دخول سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے ليے ان پر كوئى عدت نہيں جسے وہ عدت شمار كريرں الاحزاب ( 49 ). انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 397 ).
اس بنا پر اگر آپ كا سابقہ خاوند آپ سے رجوع كرنا چاہے تو اس كے سامنے صرف يہى ايك حل ہے كہ وہ آپ كے ساتھ نئے مہر كے ساتھ نيا نكاح كر لے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ دونوں كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .