"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں امریکن ایکسپریس گرین کارڈ (American Express Green card) کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کارڈ کے ذریعے میں 15 ہزار ریال تک نقدی وصول کر سکتا ہوں اور پھر مجھ پر لازمی ہو گا کہ میں آئندہ ماہ کی 5 تاریخ سے پہلے پہلے یہ ساری رقم واپس کر دوں، اس صورت میں مجھ پر کسی قسم کا منافع ادا کرنا لازم نہیں ہو گا، تاہم ہر ٹرانزیکشن پر 75 ریال فیس وصول کی جاتی ہے، اسی طرح اگر ادائیگی میں تاخیر ہو تو ہر ماہ تاخیر کی بنا پر 150 ریال فیس ہے، اور ادائیگی میں تاخیر تین ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس کارڈ سے متعلق آخری نکتہ یہ ہے کہ امریکن ایکسپریس نے ادائیگی میں تاخیر پر عائد فیس کو تناسب سے ہٹا کر متعین رقم فیس کی مد میں لاگو کر دی ہے جو کہ بڑھتی نہیں ہے۔ اسی طرح [ویزا ]کارڈ پر بطور تحفہ ملنے والے پوائنٹس سے استفادہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ اللہ تعالی آپ کو ہر طرح کی بھلائی عطا فرمائے۔
الحمد للہ.
اول:
اگر ویزا کارڈ درج ذیل شرعی خرابیوں سے پاک ہو تو اس کارڈ کے ذریعے لین دین کرنا جائز ہے:
1- ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں منافع یا جرمانے کے نام پر اضافی رقم وصول کی جائے۔
2- غیر مشمول کریڈٹ کارڈ جاری کنندگان صارف سے کارڈ جاری کرتے وقت اتنی مقدار میں پیسے وصول کریں جو پیش کردہ خدمات کے حقیقی معاوضہ سے زیادہ ہوں۔
3- ویزا کارڈ غیر مشمول ہونے کی صورت میں رقم نکالنے پر مخصوص تناسب میں فیس لینا، تاہم خدمات کا حقیقی معاوضہ لینا جائز ہے، تو جتنا معاوضہ حقیقی لاگت سے زیادہ ہو گا وہ سود شمار ہوگا۔
4- اس غیر مشمول کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سونا، چاندی یا دیگر نقدی نوٹ خریدنا جائز نہیں ہے۔
اسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے اس کے متعلق قرارداد بھی جاری ہو چکی ہے، اس کے لئے آپ سوال نمبر: (97530) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
دوم:
سوال میں مذکور کارڈ کے ذریعے لین دین کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ پایا جاتا ہے، چاہے اس کارڈ کے ذریعے لین دین کرنے والا شخص وقت پر ادائیگی کرنے میں پر عزم ہو۔ نیز اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تاخیر کی صورت میں لاگو ہونے والا جرمانہ فیصدی تناسب ہو یا متعین رقم؛ کیونکہ قرضے پر اضافی رقم کی شرط لگانا ہی سود ہے۔
اسلامی فقہ اکیڈمی کی ذکر شدہ قرارداد میں یہ بھی ہے کہ:
" اگر غیر مشمول کریڈٹ کارڈ سودی منافع ادا کرنے کے ساتھ مشروط ہو تو اسے جاری کرنا یا اس کے ذریعے لین دین جائز نہیں ہے ، چاہے صارف استعمال شدہ رقم مقررہ وقت کے اندر اندر ادا کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہو، جس میں کسی قسم کی اضافی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔"
سوم:
اس کارڈ کو استعمال بالکل نہ کیا جائے بلکہ اسے ختم کروا دیا جائے، سودی لین دین قبول کرنے پر اللہ تعالی سے سچی توبہ بھی کریں، اور اگر تاخیر کی بنا پر جرمانہ ادا کر چکے ہیں تو اس عمل پر بھی اللہ سے توبہ کریں۔
چہارم:
اگر کوئی شخص بینک میں رقوم اس لیے رکھے کہ وہ ویزا کارڈ میں اسے استعمال کرے گا تو اس طرح وہ بینک کو قرض دے رہا ہے، چنانچہ یہ جائز ہی نہیں ہے کہ بینک سے تحائف یا ریوارڈ حاصل کرے، یا کسی ایسے شخص سے تحائف وغیرہ وصول کرے جن سے بینک تعاون کرتا ہے؛ کیونکہ یہ تمام تحائف قرضے پر وصول ہوں گے اور اس طرح یہ "ہر ایسا قرض جو نفع کھینچے تو وہ سود ہے" میں شمار ہو گا۔
اس بنا پر:
بطور تحفہ پوائنٹس وصول کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر آپ اس کارڈ اور ان پوائنٹس وغیرہ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کہ آپ یہ فقرا اور مساکین وغیرہ کو دے دیں گے تو جائز ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دیگر سودی منافع کو ٹھکانے لگاتے وقت کیا جاتا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (106245) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم