الحمد للہ.
ادائیگی میں تاخیر پر منافع لینا، یا نقدی رقوم نکالنے پر منافع وصول کرنا حرام سود کے زمرے میں آتا ہے اور اس جیسی شرعی خلاف ورزیوں سے پاک کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر بینک کریڈٹ کارڈ کے اجرا یا تجدید کے وقت پیش کردہ خدمات کے عوض حقیقی اجرت لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے قرار داد نمبر: 108 (2/12) جو کہ غیر مشمول کریڈٹ کارڈ (Credit card) [ایسا کریڈٹ کارڈ جس میں پہلے سے صارف کی رقم موجود نہ ہو، اس کے مقابلے میں ایسا کریڈٹ کارڈ ہوتا ہے جس میں پیشگی ادائیگی کر کے خریداری کی جاتی ہے جنہیں Prepaid credit card کہتے ہیں۔ مترجم] اور اس پر بینک کو حاصل ہونے والے کمیشن کے حکم کے متعلق ہے اس میں ہے کہ:
"اسلامی کانفرنس تنظیم کے ما تحت عالمی فقہ اکیڈمی کی کونسل اپنے بارہویں اجلاس جو کہ 25 جمادی الثانیہ تا یکم رجب 1421 ہجری بمطابق 23 تا 28 ستمبر 2000 ء کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقد ہوا اس میں یہ طے کرتی ہے کہ :
کونسل کی قرارداد نمبر: 5/6/1/7 بعنوان: "مالیاتی منڈیوں میں کریڈٹ کارڈ"، میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ آئندہ اجلاس میں اس کے حکم اور شرعی موافقت کے بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
نیز دسویں اجلاس کی قرارداد نمبر: 102/4/10 بعنوان: "غیر مشمول کریڈٹ کارڈ " کو مد نظر رکھ کر اور فقہائے کرام اور ماہرین اقتصادیات کے مابین بحث و تمحیص سننے کے بعد اور کریڈٹ کارڈ کی تعریف جو کہ قرارداد نمبر: 63/1/7 میں ہے جس سے غیر مشمول کریڈٹ کارڈ کی تعریف کشید ہوتی ہے کہ: یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو کہ جاری کنندہ [بینک] کسی حقیقی یا اعتباری شخص [حامل کریڈٹ کارڈ] کو ایک دو طرفہ معاہدے کی بنا پر دیتا ہے، اس کی وجہ سے سامان کی خریداری یا خدمات ایسے شخص [مرچنٹ] سے بغیر فوری ادائیگی کے حاصل کر سکتا ہے جو اس دستاویز کو قبول کرتا ہے؛ کیونکہ جاری کنندہ اس دستاویز میں رقوم کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے، چنانچہ ادائیگی جاری کنندہ کے اکاؤنٹ سے ہو گی، پھر بعد میں یہ ادائیگی حامل دستاویز کو مقررہ وقت میں جاری کنندہ کو کرنی ہو گی، نیز کچھ کریڈٹ کارڈ جاری کنندگان ادائیگی کی مقررہ تاریخ گزرنے جانے کی صورت میں کل واجب الادا رقم پر سودی منافع وصول کرتے ہیں ، جبکہ کچھ جاری کنندگان سودی منافع نہیں لیتے۔
کونسل یہ قرارداد پاس کرتی ہے:
1- اگر غیر مشمول کریڈٹ کارڈ سودی منافع ادا کرنے کے ساتھ مشروط ہو تو اسے جاری کرنا یا اس کے ذریعے لین دین جائز نہیں ہے ، چاہے صارف استعمال شدہ رقم مقررہ وقت کے اندر اندر ادا کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہو، جس میں کسی قسم کی اضافی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔
2- غیر مشمول کریڈٹ کارڈ اس وقت جاری کرنا جائز ہے جب اس میں قرض پر سودی اضافے کی شرط نہ ہو۔ اس پر درج ذیل مسائل متفرع ہوتے ہیں:
أ- غیر مشمول کریڈٹ کارڈ جاری کنندگان صارف سے کارڈ جاری کرتے وقت، یا کارڈ کی تجدید کے وقت اتنی مقدار میں پیسے وصول کر سکتے ہیں جو جاری کنندگان کی طرف سے پیش کردہ خدمات کا حقیقی معاوضہ بنیں۔
ب- جاری کنندہ بینک مرچنٹ سے صارف کی خریداری پر کمیشن وصول کر سکتا ہے، اس کیلیے شرط یہ ہے کہ مرچنٹ غیر مشمول کریڈٹ کارڈ کے ذریعے اسی قیمت میں چیز فروخت کرے جس قیمت میں نقداً فروخت کرتا ہے۔
3- اس کارڈ کے ذریعے مشین سے پیسے نکالنا جاری کنندہ [بینک]کی جانب سے قرض ہو گا، اگر اس قرض پر کوئی سودی منافع مرتب نہ ہوتا ہو تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، نیز اس کارڈ کی سالانہ فیس جس کا تعلق قرض کی مقدار یا میعاد سے نہیں ہے وہ فیس بھی سودی منافع میں شامل نہیں ہو گی۔
نیز اس کارڈ کی سالانہ فیس کی مد میں حقیقی اخراجات سے معمولی اضافہ بھی حرام ہو گا؛ کیونکہ یہ شرعی طور پر سود شمار ہو گا، اس کے متعلق فقہی اکیڈمی کی قرار داد: 13 (10/2) اور اسی طرح : 13 (1/3) موجود ہیں۔
4- اس غیر مشمول کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سونا، چاندی یا دیگر نقدی نوٹ خریدنا جائز نہیں ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم.