الحمد للہ.
اول:
کریڈٹ کارڈ دھات یا پلاسٹک کا بنایا جاتا ہے، اس کی عقبی جانب معلوماتی مقناطیسی پٹی بھی ہوتی ہے، سامنے کی جانب حامل ہذا کا نام، تاریخ اجراء، تاریخ انتہا بھی درج کی جاتی ہیں، اس کا پن کوڈ حامل ہذا کو ہی معلوم ہوتا ہے۔
کارڈ جاری کرنے والی فرم کی جانب سے یہ ایک قسم کی معتبر دستاویز ہوتی ہے جو کہ
افراد یا کمپنیوں کی فراہم کی جاتی ہے، اس کارڈ کی بدولت مخصوص تجارتی مراکز میں
خرید و فروخت، اور خدمات کا حصول رقم ادا کیے بغیر ممکن ہوتا ہے، کیونکہ ان مخصوص
تجارتی مراکز کو کارڈ جاری کنندہ کی جانب سے رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کروائی
جاتی ہے۔
"بطاقة الائتمان" از: شیخ بکر ابو زید ( ص 3 ، 4 )
دوم:
"امریکن ایکسپریس" کی جانب سے تین قسم کے کریڈٹ کارڈ جاری کیے جاتے ہیں:
1- "امریکن ایکسپریس گرین"
2- "امریکن ایکسپریس گولڈن"
3- "امریکن ایکسپریس ڈائمنڈ"
ان تمام کارڈز کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
پہلی قسم: عام کریڈٹ کارڈ، اسے ماہانہ قرض یا ماہانہ مہلت کا حامل کارڈ بھی کہا جا سکتا ہے۔
اس کا مزید تعارف یہ ہے کہ: یہ مقامی اور عالمی طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، نیز اس کے اجراء کیلئے رکنیت اور تجدید کی فیس ادا کی جا تی ہے، حامل ہذا شخص تجارتی مراکز ، ہوائی سفر کیلئے ٹکٹیں، ہوٹل، اور کھانے پینے کی جگہوں سمیت دیگر مقامات پر بھی پیسوں کی ادائیگی کر سکتا ہے۔
یہ کارڈ بھی بالکل ڈیبٹ کارڈ کی طرح ہی کام کرتا ہے، چنانچہ اس کے ذریعے رقوم کی وصولی، اور ٹرانسفر وغیرہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کیلئے جاری کنندہ کے ہاں حامل ہذا کا کھاتہ یا اکاؤنٹ ہونا لازمی نہیں ہے، بلکہ جاری کنندہ کی جانب سے حامل ہذا کو معینہ مدت کیلئے زیادہ سے زیادہ محدود حد تک رقم قرضہ دیتا ہے، اور اس حد کو ان کی اصلاح میں کریڈٹ لمٹ یا قرضے کی حد بھی کہتے ہیں۔
اس کارڈ کے جاری کنندہ عام طور پر قرضے کی واپسی کیلئے زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی مہلت دیتے ہیں، اور ایک ماہ سے زیادہ تاخیر کی بنا پر بینک قانونی چارہ جوئی کرتا ہے، اور کارڈ کی صلاحیت کالعدم قرار دیتے ہوئے سود بھی وصول کرتا ہے جسے "منافع" کہا جاتا ہے۔
چنانچہ اس قسم کے کارڈ درج ذیل عناصر پر مشتمل ہیں:
1- اس کارڈ کے اجرا کیلئے صارف کا "امریکن ایکسپریس" یا "Diners Club " [ڈائینرز کلب] میں اکاؤنٹ ہونا لازمی نہیں ہے، تاہم کچھ اجراء کنندگان اس قسم کی شرط لگاتے ہیں۔
2- اجراء کنندگان حامل ہذا کو ایک حد تک قرضہ کی صورت میں رقم فراہم کرتا ہے جو کہ "قرضے کی حد" [Credit Limit] کہلاتی ہے۔
3- عام طور پر صارف کو یہ قرضہ ایک مہینے کے اندر اندر جمع کروانا ہوتا ہے۔
4- صارف اس سروس کے بدلے میں چار قسم کی اضافی ادائیگیاں کرتا ہے: رکنیت فیس، تجدید فیس، قرضے کے عوض منافع، تاخیر کے عوض منافع۔
اور مقررہ وقت پر قرضہ واپس نہ کرنے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے صارف کی رکنیت معطل کر دی جاتی ہے، یا اس سے کارڈ واپس لے لیا جاتا ہے۔
دوسری قسم: حصول قرض کیلئے کریڈٹ کارڈ، اسے قسط وار ادائیگی کارڈ بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ کارڈ زیادہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے، اور یہ "امریکن ایکسپریس" کی جانب سے جدید ترین سروس ہے، اور سب سے زیادہ صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک میں مقبولیت بھی اسی کی ہوئی ہے، چنانچہ جب کریڈٹ کارڈ کا لفظ بولا جائے تو اس سے یہی کارڈ مراد ہوتا ہے۔
اس کارڈ کی خصوصیات بھی سابقہ قسم کی طرح ہی ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ اس سے حاصل شدہ قرض کی ادائیگی کیلئے مہلت محدود نہیں ہے، بلکہ ہر مخصوص عرصے کے بعد قرضے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، صارف کو یہ کارڈ اس وقت تک استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے جب تک قرضے پر مرتب ہونے والا منافع منظم انداز سے مسلسل ادا کرتا رہے، چنانچہ یہ کارڈ جاری کنندگان کیلئے سب سے زیادہ منافع بخش ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے صارفین پر منافع کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے جو کہ جاری کنندگان کی آمدن کا باعث ہے۔
چنانچہ اس قسم کے کارڈ درج ذیل عناصر پر مشتمل ہیں:
1- اس کارڈ کے اجرا کیلئے صارف کا کھاتا یا اکاؤنٹ ہونا لازمی نہیں ہے
2- اجراء کنندگان صارف کو ایک حد تک قرضہ کی صورت میں رقم فراہم کرتا ہے جسے "قرضے کی حد" [Credit Limit] کہتے ہیں ۔
3- قرض کی ادائیگی ماہانہ قید کی بجائے قسط وار ہوتی ہے۔
4- صارف اس سروس کے بدلے میں چار قسم کی اضافی ادائیگیاں کرتا ہے: رکنیت فیس، تجدید فیس، قرضے کے عوض منافع، تاخیر کے عوض منافع۔
" بطاقة الائتمان " ( ص 8 – 11 )
اس کارڈ کی کیفیت جاننے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کی رکنیت حاصل کرنا حرام ہے؛ کیونکہ یہاں سود کے بدلے میں قرضہ دیا جا رہا ہے؛ نیز مقررہ مدت میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے جرمانے کے نام پر اضافی رقم بھی طلب کی جا رہی ہے۔
اسی طرح کا ایک سوال دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کے سامنے رکھا گیا :
مغربی ممالک میں مالیاتی امور کو آسان تر بنانے کیلئے ایک کارڈ جاری کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنے ساتھ رقم اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، کیونکہ اس کارڈ کے ذریعے کوئی بھی چیز خریدی جا سکتی ہے، پھر مہینے کے آخر میں مکمل خرچ شدہ رقم کا بل اسے دے دیا جاتا ہے، جو کہ بغیر کسی سود کے ادا کیا جاتا ہے، اس سہولت کی وجہ سے ہر شخص کا پیسہ چوری ہونے سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
لیکن اس کارڈ کو حاصل کرنے کی ایک شرط ہے کہ اگر رقوم کی ادائیگی 25 دن سے زیادہ مؤخر ہو تو وہ روزانہ کی بنیاد پر سود وصول کرتے ہیں، تو کیا ایسا کارڈ جاری کروانا جائز ہے؟ یہ واضح رہے کہ سود سے بچنے کا بالکل واضح طریقہ اس میں موجود ہے، اور وہ یہ ہے کہ 25 دنوں کے اندر اندر قیمت ادا کر دی جائے۔
تو کمیٹی کے علمائے کرام نے جواب دیا:
"اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے کہ بیان کی گئی ہے تو پھر ایسے کارڈ کو استعمال کرنا
جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں انسان سودی لین دین کا حصہ دار بنتا ہے، اس لیے کہ
ادائیگی میں تاخیر کی بنا پر اسے جاری کنندگان کو اضافی ادائیگی کرنا ہوگی " انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 13 / 524 )
شیخ عبد العزیز بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی ، شیخ عبد الله بن غدیان ، شیخ عبد
الله بن قعود
اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کچھ بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے کریڈٹ کارڈ جاری کیے جاتے ہیں، ان کے
ذریعے بیرون ِملک اخراجات اور خرید و فروخت کی ادائیگی کی جا سکتی ہے جو کہ صارف
کے کھاتے سے جاری کنندگان ہی کرتے ہیں، نیز اگر صارف کے کھاتے میں مطلوبہ رقم نہ ہو
تب بھی یہ رقم ادا کر دی جاتی ہے، لیکن یہ رقم صارف کے ذمہ واجب الادا رہتی ہے جو
صارف نے اپنے بینک یا جاری کنندہ کو ادا کرنی ہوتی ہے، تاہم بسا اوقات صارف کو معین
مقدار میں سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے، اور کبھی کبھار صارف کے ارادے کے بغیر ہی یہ
سودی رقم دینا پڑ جاتی ہے، تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے، اور اگر ماضی میں ایسا ہو
چکا ہو تو کیا کرنا چاہیے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس طرح سے لین دین کرنا حرم ہے، کیونکہ اس میں سودی لین دین کا اقرار کرنے کے بعد
لین دین کیا جاتا ہے، اگرچہ صارف وقت سے پہلے ادائیگی کر کے سود سے بچ جاتا ہے لیکن
وہ تاخیر کی صورت میں سود دینے کا اقرار کر کے سودی لین دین میں شامل ہو چکا ہے،
اور یہ حرام ہے، چنانچہ اگر سود کی مد میں اسے کچھ رقم ملی ہے تو سود سے جان
چھڑانے کیلئے صدقہ کر دے، اور اگر اس نے سود دیا ہے تو ایسی صورت میں صرف توبہ بھی
کافی ہوگی کیونکہ اس کی ملکیت سے سودی رقم اضافی ادائیگی کی صورت میں نکل چکی ہے
یہ مظلوم ہے نہ کہ ظالم" انتہی
" لقاءات الباب المفتوح " ( 17 / سوال نمبر: 19 )
شیخ بکر ابو زید حفظہ اللہ کہتے ہیں:
کریڈٹ کارڈ کی تمام قسمیں جن میں : ویزا، امریکن ایکسپریس، ماسٹر کارڈ وغیرہ سب کی
سب حقیقت میں سودی کارڈ ہیں، اور اس کارڈ کی آڑ میں تین یا چار فریق گناہ و
زیادتی سمیت سودی لین دین پر اتفاق کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَإِنْ
يُرِيدُوا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللَّهَ مِنْ قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ
وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: اگر وہ اب آپکو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو انہوں نے اس سے پہلے
بھی اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن اللہ تعالی نے انہیں وہیں دبوچ لیا،
اور اللہ تعالی جاننے والا حکمت والا ہے۔[الأنفال:71]
چنانچہ انہوں نے پہلے تو واضح انداز میں سود کے بدلے قرض دیے اور
کریڈٹ کارڈ کا سہارا نہیں لیا، لیکن اب انہوں نے سودی لین دین کو کریڈٹ کارڈ کے نام
سے ڈھانپ کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے، اور ہر ایک میں حدود الہی کی پامالی شامل
ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے حدود اللہ کی پامالی کرنے والوں پر اپنا غیض و غضب نازل
فرمایا اور حیلے بہانے کے ذریعے حدود اللہ پامال کرنے والے یہودیوں پر لعنت بھی
فرمائی، اور کہا:
(فَبِمَا
نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً
يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ
وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ)
ترجمہ: ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے
دلوں کو سخت کر دیا ، وہ کلام کو اس کے محل سے بدل دیتے ہیں اور انہوں نے اس میں سے
ایک حصہ بھلادیا جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی اور آپ ہمیشہ ان میں سے کچھ لوگوں کے
سوا باقی لوگوں کی کسی نہ کسی دھوکہ دہی سے مطلع ہوتے رہیں گے [
المائدة:13]
چہارم:
سوال میں مذکور کارڈ کی رکنیت حاصل کرنے کے بارے میں آپکو حکم معلوم ہو چکا ہے، اس لیے آپکو اب سچی توبہ کی ضرورت ہے، خاص طور پر آپ پر لگائے گئے جرمانوں کی ادائیگی سود ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے؛ چنانچہ اگر جرمانہ ادا کیے بغیر آپ ان سے چھٹکارا پا سکتے ہیں تو پوری کوشش کریں، اور اگر جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے آپکو کسی نقصان کا خدشہ ہے تو پھر جرمانہ ادا کر دیں، اور اللہ تعالی سے اس کے بدلے کی امید رکھیں، اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے۔
آپ اس بارے میں ایک فتوی سوال نمبر: (824) کے جواب میں بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.