"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں يونيورسٹى سٹوڈنٹ ہوں اور دوران تعليم كالج كى ڈسپنسرى ميں مجھ پر منكشف ہوا كہ اكثر غذائى مواد ميں بہت قليل سى مقدار ميں الكحل كا اضافہ كيا جاتا ہے، يہ اسے محفوظ ركھنے يا پھر اسے موٹا كرنے كے ليے يا دو مادوں كو ملانے كے ليے استعمال كى جاتى ہے، اور وہ درج ذيل ہيں: GLYCEROL; SORBIT; XYLIT; MALTIT; VANILIN; TRIACETIN; AGAR AGAR; PEKTIN.
دوسرا سوال:
كريم اور خوشبوجات اور عمومى ميك اپ سامان ميں اس كے استعمال كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
الكحل نشہ آور مواد ميں سے ہے، اور ہر نشہ آور چيز خمر ( شراب ) ہے، اور شراب حرام ہے، يہاں الكحل سے دو چيزيں متعلق ہيں:
اول:
كيا يہ نجس ہے يا نہيں ؟
دوم:
كيا كسى دوسرى چيز ادويات اور غذائى مواد ميں ملانے سے اس ميں اثرانداز ہوتى ہے ؟
پہلى چيز كے متعلق عرض يہ ہے كہ:
جمہور علماء كرام كے ہاں شراب حسى نجاست ہے، اور صحيح يہ ہے كہ يہ ايسے نہيں، بلكہ اس كى نجاست معنوى ہے.
اور دوسرى چيز كے متعلق عرض ہے كہ:
جب الكحل كسى دوسرى چيز دوائى يا غذائى مواد ميں مكس كى جائے تو اس كى دو شكليں ہيں: يا تو اس كى تاثير واضح ہو يا پھر تاثير واضح نہ ہو، اگر اس كى تاثير واضح ہو تو وہ مخلوط شدہ چيز حرام ہو گى، اور اس غذائى مواد اور دوائى كو كھانا اور پينا حرام ہو گا.
ليكن اگر ان غذائى مواد اور دوائيوں وغيرہ ميں اگر اس كى تاثير واضح نہ ہو تو اسے كھانا اور پينا جائز ہو گا، صرف الكحل استعمال كرنا يا كسى چيز ميں الكحل ملا كر استعمال كرنے ميں فرق ہے، صرف الكحل استعمال كرنى جائز نہيں بلكہ حرام ہے، چاہے اس كى مقدار كتنى بھى قليل ہى كيوں نہ ہو، ليكن اگر وہ كسى دوسرى چيز ميں ملائى جائے تو اس كى مندرجہ بالا سطور ميں تفصيل بيان ہو چكى ہے اگر اثر انداز ہو تو جائز نہيں.
اس مسئلہ كى تفصيل ميں ہم ذيل ميں شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كا فتوى نقل كرتے ہيں:
شيخ رحمہ اللہ كہا كہنا ہے:
" الكحل نشہ آور مادہ ہے، جيسا كہ معروف ہے، تو اس طرح يہ خمر شمار ہو گى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر نشہ آور چيز حرام ہے "
اور ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" ہر نشہ آور چيز خمر ہے "
اس بنا پر اگر يہ الكحل كسى چيز ميں ملائى جائے اور جس ميں ملائى گئى ہے وہ چيز اس الكحل كو ختم نہ كرے تو وہ چيز بھى اس سے حرام ہو جائيگى؛ كيونكہ اس نے اس چيز ميں اثر كيا ہے، ليكن اگر وہ الكحل اس چيز ميں مل كر ختم ہو جائے اور اس كا كوئى اثر باقى نہ رہے تو پھر يہ اس سے حرام نہيں ہو گى؛ كيونكہ اہل علم رحمہ اللہ اس پر متفق ہيں كہ:
جب پانى ميں نجاست مل جائے اور وہ اسے تبديل نہ كرے تو وہ پانى طاہر ہے، اور جس چيز ميں الكحل ملائى جا رہى ہے بعض اوقات اس ميں الكحل كى مقدار اور تناسب زيادہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات قليل مقدار، دوسرے معنوں ميں اس طرح كہ بعض اوقات يہ الكحل بہت زيادہ قوى ہوتى ہے اور مخلوط شدہ چيز ميں اس تھوڑى سى الكحل كا اثر ہوگا، اور بعض اوقات الكحل ضعيف ہوتى ہے اور اس ميں كوئى اثر نہيں ہوتا، چنانچہ سارے كا سارا دار و مدار تاثير پر ہے.
پھر يہاں دو مسئلے ہيں:
پہلا مسئلہ:
كيا خمر اور شراب نجاست حسى ہے ؟
يعنى اس سے بچنا اور اگر كپڑے اور بدن كو لگنے كى صورت ميں اسے دھونا ضرورى ہے، اور اسى طرح اگر برتن ميں ہو تو كيا اسے دھونا ضرورى ہو گا يا نہيں ؟
جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ خمر يعنى شراب نجاست حسى ہے، اور اگر بدن يا كپڑے يا برتن، يا قالين وغيرہ كو لگ جائے تو اسے بالكل اسى طرح دھونا ضرورى ہے جس طرح پيشاب اور گندگى دھونى ضرورى ہے.
انہوں نے درج ذيل فرمان بارى تعالى سے استدلال كيا ہے:
اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ المآئدۃ ( 90 ).
الرجس: نجس كو كہتے ہيں، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے الانعام ( 145 ).
تو يہاں رجس كا معنى ناپاك اور نجس ہے.
اور انہوں نے درج ذيل حديث سے بھى استدلال كيا ہے:
ابو ثعلبۃ الخشنى رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كفار كے برتنوں ميں كھانے كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ان برتنوں ميں مت كھاؤ، ليكن اگر تمہيں كوئى اور برتن نہ مليں تو پھر انہيں دھو كر ان ميں كھا لو "
اور ان برتنوں ميں نہ كھانے كى علت كے متعلق يہ وارد ہے كہ وہ ان برتنوں ميں شراب اور خنزير كا گوشت وغيرہ ركھتے تھے.
ليكن اس مسئلہ ميں دوسرا قول يہ ہے كہ: يہ نجاست حسى نہيں، انہوں نے اس قول كى دليل يہ دى ہے كہ اشياء ميں اصل طہارت و پاكيزگى ہے، اور اور كسى چيز كے حرام ہونے سے اس كا نجس ہونا لازم نہيں آتا، بلاشك و شبہ زہر حرام ہے، ليكن اس كے باوجود وہ نجس نہيں.
اور ان كا كہنا ہے كہ: شرعى قاعدہ ہے كہ: " ہر نجس حرام ہے، ليكن ہر حرام نجس نہيں "
اس بنا پر خمر اور شراب حرام ہى رہے گى، ليكن نجس نہيں حتى كہ اس كى نجاست كى كوئى دليل نہ مل جائے.
اور انہوں نے اس سے بھى استدلال كيا ہے كہ: جب شراب حرام كى گئى تو مسلمانوں نے اسے بازاروں اور گليوں ميں بہا ديا اور اس سے برتن دھوئے نہيں تھے، اور اسے بازاروں اور گليوں ميں بہانا اس كے نجس نہ ہونے كى دليل ہے؛ كيونكہ كسى بھى انسان كے ليے جائز نہيں كہ وہ مسلمانوں كى گليوں اور بازاروں ميں كوئى نجس چيز بہائے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" دو لعنت والى چيزوں سے بچ كر رہو.
صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ لعنت والى دو چيزيں كونسى ہيں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ جو لوگوں كى راہ ميں پيشاب و پاخانہ كرتا ہے، يا ان كے سايہ والى جگہ ميں "
اور اس ليے بھى كہ انہوں نے اس سے برتن نہيں دھوئے تھے، اور اگر شراب نجس ہوتى تو اس سے برتن دھونے واجب ہوتے، اور اس قول كى دليل درج ذيل مسلم شريف كى حديث سے بھى لى گئى ہے:
ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايك مشكيزہ شراب ہديہ دى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بتايا كہ يہ حرام ہو چكى ہے، تو چپكے سے ايك صحابى نے اس مشكيزے كے مالك كو كہا اسے فروخت كر دو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے دريافت كيا كہ تم نے اس سے چپكے سے كيا كہا ہے ؟ تو اس نے كہا: ميں نے اسے كہا ہے كہ اسے فروخت كر دو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فروخت كرنے سے منع كر ديا اور فرمايا: جب اللہ تعالى كسى چيز كو حرام كرتا ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كر ديتا ہے "
يہ حديث يا حديث كا معنى ہے، پھر اس شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موجودگى ميں ہى مشكيزے كا منہ كھول كر شراب بہا دى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے مشكيزہ دھونے كا حكم نہيں ديا، اور اگر شراب نجس ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے اس كى نجاست كے متعلق بتا ديتے اور اس مشكيزے كو دھونے كا حكم ديتے.
اور حسى نجاست كے قائلين نے جو درج ذيل فرمان بارى تعالى سے استدلال كيا ہے:
اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ المآئدۃ ( 90 ).اس كے متعلق كہا جائيگا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے يہاں رجس كو مقيد كر تے ہوئے كہا ہے كہ يہ عملى رجس ہے، يعنى شيطان كے عمل ميں سے ہے، نہ كہ بعينہ رجس ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ جوا اور تھان اور پانسے كے تيروں كى نجاست حسى نجاست نہيں، اور ان اشياء اور شراب كى خبر ايك ہى عامل كے ساتھ ہے كہ:
بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيںالمآئدۃ ( 90 ).
اور اس طرح كى دلالت كو بغير كسى معين دليل كے جدا اور اس ميں فرق نہيں كيا جا سكتا.
اور ابو ثعلبہ الخشنى رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث ميں برتن دھونے كا حكم نجاست كى وجہ سے نہيں، كيونكہ يہاں احتمال ہے كہ دھونے كا حكم اس ليے ديا گيا كہ مكمل طور پر كفار كے برتنوں سے دور رہا جائے، جنہيں وہ چھوتے ہيں يہ ان كى نجاست كى وجہ سے نہيں، كيونكہ معروف ہے كہ احتمال كے ساتھ نجاست ثابت نہيں ہوتى.
بہر حال: يہ پہلى چيز ہے جس سے الكحل كے متعلق اس سوال كے جواب ميں سرچ متعين ہو جاتى ہے، اور جب يہ واضح ہو جائے كہ شراب كى نجاست حسى نجاست نہيں، تو يہ الكحل بھى حسى نجاست نہيں ہو گى تو يہ اپنى طہارت پر باقى رہے گى.
دوسرى چيز يہ ہے كہ: جب يہ متعين ہو جائے كہ ان خوشبوجات ميں الكحل كى مقدار زيادہ ہونے كى وجہ سے مؤثر ہے تو كيا يہ پينے كے علاوہ كسى اور كام ميں استعمال كرنا جائز ہے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: كہا جائيگا: اللہ تعالى كا فرمان ہے: " اس سے اجتناب كرو " يہ ہر قسم كے استعمال ميں عام ہے، يعنى ہم اسے كھانے اور پينے اور لگانے وغيرہ ميں استعمال كرنے سے اجتناب كرينگے، بلا شك و شبہ اسى ميں احتياط ہے.
ليكن يہ پينے كے علاوہ ميں متعين نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اجتناب كے امر كو اس علت كے ساتھ بيان كيا ہے:
شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوئے كے ذريعہ تمہارے آپس ميں ميں عدوات اور بغض پيدا كر دے اور تمہيں اللہ تعالى كى ياد سے اور نماز روك دے تو اب بھى باز آ جاؤ}المآئدۃ ( 90 ).
اور يہ شراب نوشى كرنے كے علاوہ ميں نہيں ہو سكتا، اس بنا پر تقوى و ورع يہى ہے كہ ان خوشبوجات سے اجتناب كيا جائے، ليكن اسے يقينى حرام كہنا ممكن نہيں ... " انتہى.
ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب " النساء " ويب سائٹ كے ذريعہ.
سوم:
رہا مسئلہ ميك اپ والى اشياء كے متعلق تو اس كے حكم كے بارہ ميں معلومات حاصل كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 41052 ) اور ( 20226 ) اور ( 26799 ) اور ( 26861 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .