"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
فجر كى اذان كے دوران كھانے كا حكم كيا ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب نماز كھڑى ہو جائے اور تمہارے ہاتھ ميں برتن ہو تو وہ اپنى ضرورت پورى كر كے ركھے " ؟
الحمد للہ.
اول:
سائل نے جو حديث ذكر كى ہے وہ ان الفاظ كے ساتھ مروى نہيں، بلكہ اس كے الفاظ يہ ہيں:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميں سے جب كوئى اذان سنے اور اس كے ہاتھ ميں برتن ہو تو وہ اسے اپنى حاجت پورى كرے بغير نہ ركھے "
مسند احمد حديث نمبر ( 10251 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2350 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، علماء كرام كے ہاں اس حديث كا معنى كيا ہے اسے آگے بيان كيا جائے گا.
دوم:
روزے دار كو طلوع فجر سے ليكر غروب آفتاب تك روزہ ختم كر دينے والى اشياء سے اجتناب كرنا لازم ہے، لہذا معتبر تو طلوع فجر ہے نہ كہ اذان.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ رات كے سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
لہذا جسے فجر صادق طلوع ہونے كا يقين ہو چكا ہو اس كے ليے كھانا پينا بند كرنا لازم ہے، اور اگر اس كے منہ ميں كچھ ہو تو اسے بھى باہر نكال پھينكے، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو اس كا روزہ فاسد ہے.
ليكن جسے فجر صادق كے طلوع ہونے كا يقين نہيں ہوا تو وہ يقين ہونے تك كھا پى سكتا ہے، اور اسى طرح اگر اسے علم ہو جائے كہ مؤذن وقت سے قبل اذان ديتا ہے، يا اسے شك ہو كہ وہ وقت يا وقت سے قبل اذان ديتا ہے تو اسے يقين ہونے تك كھانے كا حق ہے، اولى اور بہتر ہے كہ وہ اذان سنتے ہى كھانا پينا فورا بند كر دے.
اور مذكورہ حديث كو علماء كرام نے اس پر محمول كيا ہے كہ اگر مؤذن طلوع فجر سے قبل اذان ديتا ہو.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں لكھتے ہيں:
" ہم نے ذكر كيا ہے طلوع فجر ہو جائے اور جس كے منہ ميں كھانا ہو تو وہ اسے باہر نكال پھينكے، اور اپنا روزہ پورا كرے، اور اگر اس نے طلوع فجر كا علم ہو جانے كے بعد كھانا نگلا تو اس كا روزہ باطل ہے، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اس كى دليل ابن عمر اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلاشبہ بلال رضى اللہ تعالى عنہ رات كو اذان ديتے ہيں، لہذا تم كھاؤ پيؤ حتى كہ ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ اذان ديں "
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے، اور اس كے علاوہ بھى اس معنى كى صحيح بخارى ميں احاديث ہيں.
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم ميں سے كوئى اذان سنے اور برتن اس كے ہاتھ ميں ہو تو وہ اپنى ضرورت پورى كيے بغير برتن نہ ركھے "
اور ايك روايت ميں ہے:
" اور مؤذن فجر پھوٹنے كے بعد اذان ديتا ہو "
ابو عبد اللہ الحاكم نے پہلى روايت كى ہے اور كہا ہے كہ يہ صحيح ہے اور مسلم كى شرط پر ہے، ان دونوں روايتوں كو بيھقى نے روايت كيا ہے، پھر كہتے ہيں: اگر يہ صحيح ہو تو عام اہل علم كے ہاں اس پر محمول ہو گى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب يہ علم ہوا كہ وہ طلوع فجر سے قبل اذان ديتا ہے اس طرح كہ اس كا پانى پينا طلوع فجر سے قبل واقع ہو گا، ان كا كہنا ہے كہ: قولہ: " جب فجر پھوٹ پڑے " احتمال ہے كہ يہ كلام ابو ہريرہ كى نہ ہو بلكہ كسى اور كى ہے، يا يہ كہ يہ دوسرى اذان كى خبر ہو، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول اس طرح ہو گا:
" تم ميں سے كوئى اذان سنے اور برتن اس كے ہاتھ ميں ہو" يہ پہلى اذان كى خبر ہے، تا كہ ابن عمر اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كے موافق ہو جائے، ان كا كہنا ہے كہ اس طرح سب احاديث سے موافقت ہو جاتى ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے, واللہ اعلم انتہى
ديكھيں: المجموع ( 6 / 333 ).
اور تھذيب السنن ميں ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے ذكر كيا ہے كہ بعض سلف رحمہ اللہ تعالى نے سوال ميں وارد شدہ حديث كے ظاہر كو ليتے ہوئے اذان فجر سننے كے بعد بھى كھانا پينا جائز قرار ديا ہے، اور پھر كہتے كہا ہے:
" اور جمہور علماء كرام كا مسلك ہے كہ طلوع فجر كے بعد سحرى كھانى ممنوع ہے، آئمہ اربعہ اور عام فقھاء كرام كا يہى قول ہے، اور يہى معنى عمر اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى مروى ہے.
پہلے حضرات نے مندرجہ ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم سے استدلال كيا ہے:
" ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ كے اذان دينے تك كھاؤ پيئو، اور ابن ام مكتوم طلوع فجر كے بعد اذان ديتے تھے"
بخارى ميں ايسے ہى ہے، اور بعض روايات ميں ہے:
" ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ نابينا آدمى تھے اور اس وقت تك اذان نہيں ديتے تھے جب تك كہ انہيں يہ نہ كہا جاتا آپ نے صبح كردى صبح كر دى"
اور جمہور علماء كرام نے مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى سے استدلال كيا ہے:
اور تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ رات كے سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان سے:
" ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ كے اذان دينے تك كھاؤ پيئو "
اور اس فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم سے:
" فجر كى دو قسميں ہيں، پہلى فجر كھانا حرام نہيں كرتى، اور نماز كو حلال نہيں كرتى، اور دوسرى كھانے كو حرام اور نماز كو حلال كرتى ہے "
اسے امام بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے سنن بيھقى ميں روايت كيا ہے. انتہى
اور بعض سلف رحمہ اللہ تعالى سے كچھ آثار وارد ہيں، جو طلوع فجر كے يقين ہوتے تك روزے دار كے ليے كھانے كى اباحت پر دلالت كرتے ہيں، اور ابن حزم رحمہ اللہ تعالى نے ان ميں سے بہت سے آثار ذكركيے ہيں، جن ميں سے چند ايك ذيل ميں ديے جاتے ہيں:
" عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے: جب جو آدمى فجر ميں شك كريں تو وہ يقين ہوتے تك كھاتے رہيں .... "
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كہتے ہيں:
" اللہ تعالى نے پينا حلال كيا ہے جب تك تجھے شك ہو؛ يعنى فجر ميں ...
اور مكحول رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ميں نے ديكھا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے زمزم سے ڈول ليا اور دو آدميوں كو كہنے لگے: كيا فجر طلوع ہو گئى ہے ؟
تو ايك شخص نے كہا طلوع ہو چكى ہے، اور دوسرا كہنے لگا: نہيں، تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے زمزم پى ليا "
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث جس كے بارہ ميں سوال كيا گيا ہے، اور اس كے مشابہ دوسرے آثار پر تعليق كرتے ہوئے كہا ہے:
" يہ سب اس بنا پر ہے كہ ان كے ليے ابھى واضح فجر طلوع نہيں ہوئى تھى؛ تو اس طرح احاديث قرآن كے ساتھ موافق ہو جاتى ہيں" انتہى
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 367 ).
اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ آج اكثر مؤذن گھڑيوں اور كيلنڈروں پر اعتماد كرتے ہيں، نہ كہ فجر ديكھنے پر، اور اسے طلوع فجر ميں يقين شمار نہيں كيا جائے گا، لہذا جس نے كھا پى ليا اس كا روزہ صحيح ہے، كيونكہ يقينى طور پر فجر طلوع نہيں ہوئى، اور اولى و بہتر اور احتياط اسى ميں ہے كہ كھانے پينے سے اس وقت پرہيز كيا ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
اذان سن كر بھى كھانا پينا جارى ركھنے والے كے روزے كا شرعى حكم كيا ہے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جب واضح ہو جائے كہ فجر طلوع ہو چكى ہے اور روزہ فرضى ہو مثلا رمضان يا نذر اور كفارہ كا روزہ تو مومن كے ليے واجب ہے كہ وہ كھانے پينے اور روزہ ختم كردينے والى دوسرى اشياء استعمال كرنے سے رك جائے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ رات كے سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
جب اذان سنے اور اسے علم ہو كہ فجر كى اذان ہو رہى ہے تو اس پر كھانے پينے سے ركنا واجب ہے، اور اگر مؤذن طلوع فجر سے قبل اذان ديتا ہو تو اس كے ليے كھانا پينا بند كرنا واجب نہيں، بلكہ واضح طور پر فجر طلوع ہونے تك كھانا پينا جائز ہے.
اور اگر مؤذن كے متعلق علم نہ ہو كہ آيا وہ طلوع فجر سے پہلے اذان ديتا ہے يا بعد ميں تو اولى و بہتر اور احتياط اسى ميں ہے كہ اذان سن كر كھانا پينا بند كر ديا جائے، اور اذان كے وقت كھانے پينے ميں كوئى نقصان نہيں كيونكہ اسے طلوع فجر كا علم نہيں.
اور يہ تو معلوم ہے كہ ان شھروں جہاں بجلى كے قمقے اور لائٹ ہوتى ہے وہاں بعينہ طلوع فجر كا وقت معلوم نہيں كيا جا سكتا، ليكن اسے احتياط كرتے ہوئے اذان اور كلينڈر پر عمل كرنا چاہيے جس ميں گھنٹوں اور منٹوں كى شكل ميں طلوع فجر كى تحديد كى گئى ہوتى ہے، تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر عمل ہو سكے:
" جس ميں شك ہو اسے چھوڑ كر اسے ليں جس ميں شك نہ ہو "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شبھات سے اجتناب كرتا ہے اس نے اپنے دين اور عزت كو محفوظ كر ليا "
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے. انتہى
ماخوذ از: فتاوى رمضان جمع و ترتيب اشرف عبد المقصود ( 201 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
سوال: ؟
اللہ تعالى آپ كى حفاظت فرمائے، آپ نے كہا ہے كہ مؤذن كى اذان سنتے ہى كھانا پينا بند كر دينا چاہيے، كئى برسوں سے ايسا ہو رہا ہے كہ وہ اذان ختم ہونے تك كھاتے رہتے ہيں، ان كے اس عمل كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
نماز فجر كى اذان يا تو طلوع فجر كے بعد ہو گى يا پہلے، اگر طلوع فجر كے بعد ہو تو انسان كے ليے اذان سنتے ہي كھانا پينا بند كرنا واجب ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلال ـ رضى اللہ تعالى عنہ ـ رات كو اذان ديتے ہيں، لہذا ابن ام مكتوم ـ رضى اللہ تعالى عنہ ـ كے اذان دينے تك كھاتے پيتا رہا كرو، كيونكہ وہ طلوع فجر ہونے پر اذان ديتے ہيں"
اگر تو آپ كو علم ہے كہ يہ مؤذن طلوع فجر كے بعد اذان ديتا ہے تو آپ اذان سنتے ہى فورا كھانا پينا بند كرديں، ليكن اگر مؤذن كلينڈر كے وقت پر اعتماد كر كے اذان ديتا ہے، يا پھر وہ اپنى گھڑى كے مطابق اذان ديتا ہے تو پھر اس ميں معاملہ آسان ہے.
تو اس بنا پر ہم اس سائل كو يہ كہيں گے:
جو كچھ ہو چكا ہے اس كى آپ پر قضاء لازم نہيں، كيونكہ آپ كو يہ يقين نہيں كہ آپ نے طلوع فجر كے بعد كھانا كھايا ہے، ليكن آئندہ مستقبل ميں انسان كو چاہيے كہ اس معاملہ ميں احتياط كرے، اور جب مؤذن كى آذان سنے تو كھانا پينا بند كردے. انتہى
ماخوذ از: فتاوى رمضان صفحہ نمبر ( 204 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے كلينڈر كے بارہ جو كہا جاتا ہے كہ يہ دقيق نہيں اس كے متعلق كہا:
( كيونكہ اب بعض لوگ اس كيلنڈر ميں شك كرنے لگے ہيں جو لوگوں كے پاس عام موجود ہے، وہ كہتے ہيں يہ طلوع فجر سے پہلے ہے، حالانكہ ہم باہر كھلى جگہ نكلے اور ہمارے گرد و پيش كوئى روشنى وغيرہ نہيں تھى تو ہم نے ديكھا كہ فجر دير سے ہو رہى ہے، اور بعض لوگ تو كہتے ہيں كہ كلينڈر سے پندرہ منٹ بعد فجر ہوئى.
ليكن ظاہر يہ ہوتا ہے كہ اس ميں مبالغہ ہے اور يہ صحيح نہيں، ہمارے خيال ميں اس وقت جو لوگوں كے پاس جو كلينڈر ہے اس ميں پانچ منٹ كى تقديم پائى جاتى ہے اور خاص كر طلوع فجر ميں، يعنى اگر مؤذن كلينڈر كے مطابق اذان دے رہا ہے اور آپ اس كى اذان كے دوران كھا ليں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر مؤذن احتياط كرتے ہوئے دير كرتا ہے كيونكہ بعض مؤذن حضرات احتياط كرتے ہوئے كلينڈر سے پانچ منٹ بعد اذان كہتے ہيں، اور بعض جاہل قسم كے مؤذن احتياط كے گمان سے اس سے بھى پہلے فجر كى اذان كہہ ديتے ہيں، كہ اس ميں روزے كے ليے احتياط ہے، ليكن وہ يہ بھول جاتے ہيں كہ وہ ايسى چيز ميں سستى اور كاہلى كر رہے ہيں جو روزے سے بھى سخت اور شديد ہے، اور وہ نماز فجر ہے، ہو سكتا ہے ان كى اذان كى بنا پر كوئى نماز فجر وقت سے پہلے ادا كر لے، اور پھر جب انسان وقت سے قبل نماز ادا كر لے چاہے صرف تكبير تحريمہ ہى وقت سے پہلے كہہ لے تو اس كى نماز صحيح نہيں... ) ماخوذ از: فتاوى الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ جلد نمبر( 19 ) سوال نمبر ( 772 )
واللہ اعلم .