سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

سحرى كا كھانا بند كرنے كا وقت اور اگر اذان ہو جائے تو كسى كے ہاتھ ميں برتن ہو تو اس كا حكم

سوال

روزے كے ليے سحرى كا كھانا بالتحديد كب بند كر دينا چاہيے، آيا مؤذن كے اللہ اكبر كہنے كے وقت يا اس ميں كيا فيصلہ كيا ہے آيا اذان ہى فيصلہ كن وقت ہے ؟
اور اگر ميرے ہاتھ ميں پانى ہو اور پانى پينے كے دوران اذان شروع ہو جائے تو كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

روزے ميں طلوع فجر سے ليكر غروب آفتاب تك روزہ توڑنے والى اشياء سے اجتناب كرنا واجب ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اب تمہيں ان ( بيويوں ) سے مباشرت كى اور اللہ تعالى كى لكھى ہوئى چيز كو تلاش كرنے كى اجازت ہے، تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تك روزے كو پورا كرو البقرۃ ( 187 ).

اور صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ:

" بلال رضى اللہ تعالى عنہ رات كو اذان ديا كرتے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ اذان كہيں، كيونكہ وہ طلوع فجر كے وقت اذان كہتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1919 ).

اس بنا پر جس كو مشاہدہ يا خبر كے ذريعہ طلوع فجر كا علم ہو جائے اس كے ليے كھانا پينا بند كر دينا لازم ہے.

اور جس نے اذن سن لى اس كے ليے بھى اذان سنتے ہى فورا كھانا پينا بند كرنا لازم ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر مؤذن اذان وقت پر ديتا ہے پہلے نہ دے.

بعض علماء كرام نے اس سے استثنى كيا ہے كہ اگر كسى شخص كے ہاتھ ميں كھانا ہو اور اذان شروع ہو جائے تو اس كے ليے اپنى ضرورت پورى كرنا اور پينا جائز ہے؛ كيونكہ ابو داود ميں درج ذيل حديث مروى ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں سے كوئى شخص اذان سنے اور اس كے ہاتھ ميں برتن ہو تو اسے اپنى حاجت پورى كيے بغير برتن نہيں ركھنا چاہيے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2350 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اس حديث كو حسن صحيح قرار ديا ہے اور امام حاكم اور امام ذہبى اور عبد الحق اشبيلى نے بھى اسے صحيح كہا ہے، اور ابن حزم رحمہ اللہ نے اس كو حجت بنايا ہے " انتہى

اور جمہور علماء كرام نے اس كو اس پر محمول كيا ہے كہ يہ اس وقت ہے جب مؤذن وقت سے قبل اذان كہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 66202 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

آج كل اكثر مؤذن كلينڈروں پر اعتماد كرتے ہيں، رؤيت فجر پر نہيں، اور يہ فجر كے طلوع ہونے ميں يقينى معتبر نہيں، چنانچہ جس نے اس وقت كھا پى ليا تو اس كا روزہ صحيح ہے، كيونكہ طلوع فجر كا يقين نہيں ہوا، اور اولى اور احتياط اسى ميں ہے كہ وہ اذان كے وقت روزہ توڑنے والى اشياء سے رك جائے.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر كوئى شخص اذان سن كر بھى كھاتا پيتا رہے تو اس كے روزے كا شرعى حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" مومن پر واجب اور ضرورى ہے كہ جب واضح ہو جائے كہ طلوع فجر ہو چكى ہے اور اس كا روزہ فرضى مثلا رمضان يا نذر يا كفارہ كا ہو تو وہ روزہ توڑنے والى اشياء سے رك جائے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تك روزے كو پورا كرو البقرۃ ( 187 ).

چنانچہ جب اذان سن لے اور اسے علم ہو جائے كہ يہ اذان طلوع فجر پر ہو رہى ہے تو اس كے ليے كھانا پينا بند كر دينا واجب ہے، اور اگر مؤذن طلوع فجر سے قبل اذان ديتا ہے تو اس پر كھانا پينا بند كرنا واجب نہيں، بلكہ اس كے طلوع فجر واضح ہونے تك كھانا پينا جائز ہے.

اور اگر وہ مؤذن كے حال كو نہيں جانتا كہ آيا اس نے طلوع فجر سے قبل اذان كہى ہے يا بعد ميں تو اس ميں اس كے ليے بہتر اور احتياط اسى ميں ہے كہ وہ اذان سنتے ہي كھانا پينا بند كر دے، ، اور اس كا اذان كے وقت كھانا پينا اسے كوئى نقصان نہيں دے گا كيونكہ اسے طلوع فجر كا علم ہى نہيں.

اور يہ معلوم ہے كہ جو لوگ شہر ميں رہتے ہيں جہاں بجلى كى روشنى اور لائيٹيں جلتى ہيں وہاں بعينہ طلوع فجر كے وقت كا علم نہيں ہو سكتا، ليكن اسے احتياطاً اذان اور كلينڈر جس ميں طلوع فجر كے وقت كى تحديد كى گئى ہوتى ہے پر عمل كرنا چاہيے.

تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر عمل ہو:

جس ميں شك ہو اسے چھوڑ كر اسے اختيار كرو جس ميں شك نہيں "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى شبہات سے اجتناب كرتا ہے اس نے اپنے دين اور اپنى عزت كو بھى محفوظ كر ليا "

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى

منقول از: فتاوى رمضان جمع و ترتيب اشرف عبد المقصود ( 201 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

انسان كھانا پينا كب بند كرے، آيا جيسا كہ كہتے ہيں كہ مؤذن لا الہ الا اللہ كہتا ہے ؟

اور اگر كوئى شخص جان بوجھ كر اذان كے بعد پانى پے لے تو كيا وہ اس شخص جيسا ہى ہوگا جو عصر كے بعد پانى پى لے يا كہ اس كا روزہ صحيح ہے ؟

بعض لوگ دليل يہ ديتے ہيں كہ فجر چراغ كى طرح نہيں كہ وہ بہت جلد روشن ہو جاتى ہے، اس ميں وسعت ہے لہذا اس كا حكم كيا ہے ؟

جب مؤذن طلوع فجر واضح ہو جانے كے بعد اذان كہتا ہو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم كھاؤ پيؤ حتى كہ ابن ام مكتوم اذن كہے، كيونكہ وہ طلوع فجر كے بعد اذان ديتا ہے "

اور جب مؤذن كہے كہ ميں نے طلوع فجر ديكھتا ہوں اور جب تك طلوع فجر ديكھ نہ لوں تو اذان نہيں كہتا؛ تو انسان اذان سنتے ہى كھانا پينا بند كر دے، مگر اس حالت ميں كہ جس ميں اسے رخصت دى گئى ہے، اور وہ يہ ہے كہ اگر اس كے ہاتھ ميں برتن ہو تو اسے اپنى حاجت پورى كر لينى چاہيے، ليكن اگر اذان كلينڈر كے اوقات كے مطابق ہوتى ہو تو يہ اوقات حسى اور ظاہرى اوقات كے ساتھ مربوط نہيں، ليكن ـ اس وقت ہمارے پاس ام القرى كلينڈر وغيرہ ـ يہ سب حساب كے اعتبار سے ہے كيونكہ انہوں نے طلوع فجر كا مشاہدہ نہيں اور نہ ہى غروب شمس كا اور نہ ہى زوال كا اور نہ ہى عصر كے وقت كا " انتہى

ماخوذ از: اللقاء الشہرى ( 1 / 214 ).

حاصل يہ ہوا كہ:

انسان كو چاہيے كہ اگر اسے علم ہو كہ مؤذن وقت پر ديتا ہے تو وہ اذان سنتے ہى كھانے پينے اور روزہ توڑنے والى اشياء سے رك جائے، ليكن اگر اسے شك ہو تو وہ اپنے ہاتھ ميں موجود پانى پينے پر ہى اكتفا كرے؛ كيونكہ يہ كہنا ممكن نہيں: كہ وہ طلوع فجر كا يقين ہونے تك كھاتا پيتا رہےگا، اور حالت يہ ہے كہ اس كے پاس كوئى ايسا وسيلہ نہيں جس سے وہ طلوع فجر كا يقين كر سكے، كيونكہ شہر ميں روشنى ہوتى ہے اور لوگ فجر صادق اور فجر كاذب ميں فرق بھى نہيں كر سكتے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب