"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہم سعودى عرب كے باشندے يورپ ميں رہتے ہيں اور يہاں فقراء و مساكين كو اچھى طرح نہيں جانتے، ہميں قابل بھروسہ اور ثقہ شخص ملا ہے ـ ان شاء اللہ ـ ليكن وہ كہتا ہے كہ تم مجھے رقم دو ميں اس ميں كچھ رقم كے چاول خريد كر فقراء كو دونگا اور كچھ كو نقد رقم، اور اس كى دليل يہ ديتا ہے كہ ہمارى تعداد پانچ سو سے زائد ہے، اور اس كے ليے اتنى مقدار ميں غلہ خريد كر منتقل كرنا مشكل ہے.
اور پھر ہو سكتا ہے فقراء نقدى لينے ميں رغبت ركھتے ہوں تا كہ وہ چاولوں سے زيادہ مستفيد ہوں اور اپنى ضرورت كى اشياء خريد سكيں، تو كيا ہم اسے چاول ديں يا پھر ہم سعودى عرب ميں اپنے بھائيوں كو وكيل بنا ديں تا كہ وہ ہمارى جانب سے فطرانہ ادا كر ديں ؟
الحمد للہ.
جمہور علماء ( جن ميں امام مالك، شافعى اور احمد رحمہم اللہ شامل ہيں ) كے ہاں نقدى ميں فطرانہ ادا كرنا جائز نہيں، بلكہ غلہ ہى ادا كرنا واجب ہے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرض كيا ہے.
بخارى اور مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو بطور فطرانہ ہر مسلمان آزاد اور غلام مرد و عورت پر فرض كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1504 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 984 ).
فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
بہت سارے فقراء يہ كہتے ہيں كہ وہ فطرانہ ميں غلہ كى بجائے نقد رقم كو بہتر سمجھتے ہيں كيونكہ يہ ان كے ليے زيادہ فائدہ مند ہے، تو كيا انہيں فطرانہ ميں رقم دينا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" ہمارى رائے تو يہى ہے كہ فطرانہ ميں نقدى ادا كرنا كسى بھى حالت ميں جائز نہيں، بلكہ غلہ ہى ادا كرنا ہوگا، اور فقير جب چاہے اسے فروخت كر كے اس كى قيمت سے فائدہ اٹھا سكتا ہے، ليكن فطرانہ دينے والے كو غلہ كى شكل ميں ہى فطرانہ ادا كرنا ہو گا.
اور اس ميں كوئى فرق نہيں كہ وہ اصناف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں تھيں، يا پھر اس موجود نئے دور ميں غلہ كى اقسام پائى جاتى ہيں، چنانچہ ہمارے وقت حاضر ميں چاول گندم سے زيادہ فائدہ مند ہيں؛ كيونكہ چاول كو پيسنے اور گوندھنے وغيرہ كى ضرورت نہيں ہوتى.
اور مقصد تو يہى ہے كہ فقراء كو فائدہ ديا جائے، اور صحيح بخارى ميں ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث مروى ہے كہ:
" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك صاع غلہ فطرانہ ديا كرتے تھے، اور ان ايام ميں ہمارا كھانا كھجور اور جو اور منقہ اور پنير تھا "
چنانچہ جب كوئى شخص غلہ اور كھانا فطرانہ ميں ادا كرے تو اسے وہ غلہ اور كھانا اختيار كرنا چاہيے جو فقراء كے ليے فائدہ مند ہو، اور يہ اوقات كے اعتبار سے مختلف ہو سكتا ہے.
ليكن فطرانہ بطور نقد رقم يا لباس يا سامان اور آلات دينے سے فطرانہ ادا نہيں ہو گا، اور نہ وہ برى الذمہ ہو سكتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل مردود ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 ) سوال نمبر ( 191 ).
اس بنا پر اگر وہ شخص ثقہ ہے تو آپ اس كے سامنے يہ شرط ركھيں كہ وہ فطرانہ ميں غلہ ہى ادا كرے، اگر وہ قبول نہيں كرتا تو آپ اپنى استطاعت كے مطابق جہاں رہتے ہيں اسى علاقے ميں فطرانہ فقراء كو ادا كر ديں، پھر اس كے بعد باقى فطرانہ كسى دوسرے علاقے ميں ارسال كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اس ميں يہ شرط نہيں كہ اپنے اصل ملك ميں ہى فطرانہ ادا كريں، بلكہ جب كسى علاقے كے لوگ زيادہ ضرورت مند اور محتاج ہوں تو وہاں فطرانہ منتقل كرنا بہتر ہے يا پھر اپنے فقراء رشتہ دار كو دينا.
سوال نمبر ( 43146 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ ضرورت كى بنا پر كسى دوسرے علاقے ميں زكاۃ منتقل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، جيسا كہ اگر زكاۃ دينے والا اپنے رشتہ داروں كو يا پھر ايسے علاقے ميں جہاں زيادہ حاجت مند ہوں منتقل كر دے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا اپنے اہل و عيال سے دور شخص گھر والوں كا فطرانہ ادا كرے، يہ علم ميں رہے كہ گھر والے اپنا فطرانہ خود ادا كرتے ہيں ؟
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا جواب تھا:
فطرانہ ايك صاع چاول يا گندم يا كھجور وغيرہ مقرر كيا گيا ہے، يا وہ اشياء جسے لوگ بطور خوراك استعمال كرتے ہيں اس ميں ہر شخص دوسرے فرائض كى طرح خود مخاطب ہے كيونكہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر آزاد اور غلام مرد و عورت چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فطرانہ فرض كيا، اور حكم ديا كہ يہ لوگوں كے نماز عيد كے ليے جانے سے قبل ادا كيا جائے "
چنانچہ جب گھر والے خود اپنا فطرانہ ادا كرتے ہيں تو پھر گھر سے دور شخص كے ليے اپنے گھر والوں كى جانب سے فطرانہ ادا كرنا لازم نہيں، ليكن وہ صرف اپنا فطرانہ ضرور ادا كرے جہاں وہ رہ رہا ہے اگر وہ مستحق مسلمان رہتے ہوں تو ٹھيك وگرنہ وہ اپنے ملك ميں گھر والوں كو وكيل بنا سكتا ہے " اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 ) سوال نمبر ( 771 ).
ان سے يہ سوال بھى كيا گيا:
دور دراز كے علاقوں اور ملكوں ميں فقراء و مساكين كى موجودگى كى دليل كے ساتھ فطرانہ وہاں منتقل كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر كسى ضرورت كے تحت كسى دوسرے علاقے ميں فطرانہ منتقل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا جہاں شخص رہتا ہے وہاں فقراء نہ ہوں تو ٹھيك ہے.
اور اگر بغير كسى ضرورت كے منتقل كيا جائے كہ اس علاقے ميں بھى فقراء موجود ہوں اور وہ فطرانہ قبول كريں تو پھر وہاں سے دوسرے علاقے ميں منتقل كرنا جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 ) سوال نمبر ( 102 ).
ذيل ميں مستقل فتوى كميٹى كا فتوى درج كيا جاتا ہے جس ميں يہ سب مسائل جمع ہيں اور اس كے علاوہ كچھ زيادہ بھى:
" فطرانہ كى مقدار ايك صاع كھجور يا جو يا منقہ يا پنير يا كوئى اور غلہ ہے، اور اس كا وقت عيد الفطر كى رات سے ليكر نماز عيد سے قبل تك ہے، اور ايك يا دو يا تين يوم قبل فطرانہ كرنا جائز ہے، اور يہ فطرانہ مسلمان فقراء ميں اسى علاقے ميں تقسيم كيا جائيگا جہاں فطرانہ نكالا گيا ہے.
اور فطرانہ كسى دوسرے علاقے ميں وہاں كى شديد ضرورت كے پيش نظر منتقل كرنا جائز ہے، اور امام مسجد يا دوسرے ثقہ اور امين اشخاص كے ليے فطرانہ جمع كر كے فقراء ميں تقسيم كرنا جائز ہے؛ ليكن شرط يہ ہے كہ وہ نماز عيد سے قبل مستحقين تك پہنچ جائے، اس كى مقدار مالى تضخم كے تابع نہيں، بلكہ شريعت مطہرہ نے اسے ايك صاع كے ساتھ محدود كيا ہے.
اور جس شخص كے پاس اپنى اور اپنے ماتحت افراد جن كا خرچ اس كے ذمہ ہے صرف عيد كے دن كى ہى خوراك ہو اس سے فطرانہ ساقط ہو جائيگا، اور يہ فطرانہ مساجد بنانے يا پھر دوسرے خيراتى كاموں كے ليے جائز نہيں "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 369 - 370).
فطرانہ كے وجوب اور اس كى مقدار اور نقدى طور پر عدم جواز، اور شديد حاجت و ضرورت كى بنا پر كسى دوسرے علاقے ميں فطرانہ منتقل كرنے كے جواز كے متعلق علماء كرام كے فتاوى جات درج ذيل سوالات كے جوابات ميں بيان ہوئے ہيں:
سوال نمبر ( 22888 ) اور ( 27016 ) اور ( 7175 ) اور ( 12938 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .