الحمد للہ.
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی جات ( 10/9 )میں ہے کہ:
زکاۃ ان لوگوں کی دی جائے گی جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌصدقات تو صرف فقیروں ، مسکینوں ، ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہو ، اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر وں پر (خرچ کرنے کے لیے ہے)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة : 60] چنانچہ زکاۃ اسی کو دی جائے گی جس کے بارے میں ظاہری طور پر مسلمان ہونا ثابت ہوجائے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا تھا: (انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو تمہارے [مسلمان]امیر لوگوں سے لیکر غریب [مسلمان] لوگوں میں تقسیم کی جائی گی) اور جس فقیر یا مسکین کو زکاۃ دی جائے وہ جتنا زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو وہ دیگر فقراء اور مساکین کے مقابلے میں اتنا ہی زیادہ حقدار ہوگا۔
مذکورہ بالا حدیث کی رو سے اصول یہی ہے کہ کہ زکاۃ اسی علاقے میں تقسیم کی جائے گی جہاں سے زکاۃ اکٹھی کی گئی ہے، اور اگر کسی دوسرے ملک میں زیادہ غربت یا اُس ملک میں زکاۃ دینے والے کے محتاج رشتہ دار رہتے ہوں یا اسکےعلاوہ کسی اور وجہ کے باعث زکاۃ منتقل کرنے کی کوئی ضرورت آن پڑے تو زکاۃ منتقل کی جاسکتی ہے۔
واللہ اعلم.