جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

آدمى نے عورت سے زنا كا اعتراف كيا اور خاوند كے پا ساس كے قرائن بھى ہيں كيا وہ بيوى كو طلاق دے دے ؟

103882

تاریخ اشاعت : 24-09-2010

مشاہدات : 11365

سوال

ميرى شادى كوتيرہ برس ہو چكے ہيں اور ميرى دو بيٹياں ايك كى عمر گيارہ اور دوسرى كى نو برس ہے، كئى ہفتے قبل مجھ پر اچانك انكشاف ہوا كہ گھر كے ٹيلى فون پر غير معروف نمبر پر لمبى لمبى ٹيلى فون كاليں ہوئى ہيں.
اس كے بعد مجھے علم ہوا كہ ميرى بيوى كے پاس خفيہ طور پر موبائل ٹيلى فون بھى ہے، اور اس سے بھى زيادہ خطرناك بات يہ كہ ميرے علم كے بغير بيوى گھر سے باہر جاتى ہے.
جب ميں اس سے دريافت كرتا ہوں يا تو وہ انكار كر ديتى ہے، يا پھر تسلى بخش جواب نہيں دے سكتى، ميں نے سسرال والوں سے اس كى شكايت كى ليكن اس سے بھى كوئى فائدہ نہ ہوا، اس كے مسلسل انكار كہ اس سے كوئى غلطى سرزد نہيں ہوئى اور قوى شخص نہ ہونے كى بنا پر بالآخر مجھے اپنے موبائل پر كئى كاليں موصول ہوئيں.
اس ميں بتايا گيا كہ ميرى بيوى نے اپنے عاشق سے بہت سارى رقم چورى كى ہے، پھر اس شخص نے مجھ سے ملاقات بھى كى اور يہ دعوى كيا كہ اس نے ميرى بيوى كے ساتھ ميرے ہى گھر ميں كئى بار زنا بھى كيا ہے.
اس شخص نے ميرے گھر كا باريك بينى سے پورا نقشہ بھى بتايا، اور ازدواجى راز بھى بتائے جسے ميں اور بيوى كے علاوہ كوئى اور شخص نہيں جانتا تھا، وہ راز ميرے اور بيٹيوں اور بيوى كے خاندان والوں كے متعلق تھے، اور ميرے بيڈ روم كے قالين اور فرش كے متعلق بھى بتايا.
اور اسى طرح بيوى كے موبائل نمبر كا بھى جسے ميں بالكل نہيں جانتا تھا كہ موبائل بھى بيوى كے پاس ہے، اور ہمارے ازدواجى اختلافات بھى بتائے، اور ميرے اور ميرے گھر والوں كے بارہ ميں جھوٹى باتيں بھى.
پھر اس شخص نے دعوى كيا كہ ايك بار زنا كے بعد ميرى بيوى نے اس كى رقم بھى چورى كر لى، اس سے بڑھ كر مصيبت يہ ہے كہ وہ اب تك انكار كرتى ہے اور ان معلومات كے بارہ ميں كوئى بات نہيں كرتى جو كہ تفصيلى اور صحيح ہيں!!
وہ اس اعتبار سے طلاق كا بھى انكار كرتى ہے كہ اس لعنتى شخص كى قربانى بن رہى ہے!! بعض اوقات وہ ميرے سامنے توبہ ظاہر كرتى اور قرآن مجيد كى تلاوت كرتى ہے، اور بعض اوقات مجھے چھوٹى سى بات پر بھى گالياں دينے لگتى ہے!!
ہمارے درميان مشكلات بڑھ رہى ہيں، اور ازدواجى زندگى كا قائم رہنا محال ہو چكا ہے، بيٹياں زندگى تباہ كر رہى ہيں اور ميرى نفسياتى حالت بھى بہت خراب ہے، اور اسى طرح ملازمت ميں بھى ميرا مورال كم ہو رہا ہے.
دسيوں بار نماز استخارہ ادا كرنے كے بعد ميں اسے اپنى بيوى بنانے پر تيار نہيں ہوا، اس ليے ميرے سامنے يہى راہ رہا ہے كہ راضى و خوشى طلاق پر سمجھوتہ كيا جائے، ليكن اس كى مالى شروط بہت ہى زيادہ ہيں اس ليے كہ وہ اپنے آپ كو برى سمجھتى ہے اور طلاق سے انكار كرتى ہے:
اس كے مطالبات يہ ہيں:
تيس ہزار خرچ بطور فائدہ ( متعہ ) اور پانچ ہزار باقى مانندہ مہر، بيٹيوں كے ليے بارہ ماہانہ، مكمل ازدواجى گھر كے ساز و سامان كے ساتھ فليٹ، علاج معالجہ اور تعليمى اور لباس كے اخراجات، بچوں كى پرورش كے ليے ايك ملكيتى فليٹ!!
سوالات يہ ہيں: كيا عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اس طرح كے مطالبات كرے، خاص كر متعہ كے اخراجات ؟
كيا مجھے لعان كرنے كا حق حاصل ہے، اور كيا مجھے حق ہے كہ ميں اسے اپنے فليٹ سے باہر نكال دوں، يا كسى اور گھر ميں منتقل ہو جاؤں ؟
جو كچھ ہوا ہے اس ميں دين اور قانون كى رائے كيا ہے اور آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ بالكل واضح ہے كہ اس بيوى كے ساتھ زندگى بسر كرنا محال ہوچكا ہے، چاہے اس نے سچ بولا ہو يا جھوٹ كيونكہ آپ كے پاس جو قرائن ہيں وہ اسے طلاق دينے كے ليے كافى ہيں، بلكہ آپ كو چاہيے كہ آپ كوئى اطاعت گزار نيك و صالح عورت تلاش كريں.

ہميں تو يہ پتہ نہيں چل رہا كہ آپ كو اس كے ساتھ ايك منٹ بھى زندگى بسر كرنا اچھا كيسے لگ رہا ہے حالانكہ آپ كو ان ٹيلى فون كالوں كا بھى علم ہوچكا، اور پھر چورى كے بارہ ميں پتہ چل گيا، اور يہ بھى علم ہوا كہ وہ بغير اجازت گھر سے باہر جاتى ہے.

چلو آدمى يہ سب كچھ تو برداشت كر ليتے ہيں، ليكن وہ شخص جس كا خيال ہے كہ اس نے آپ كى بيوى كے ساتھ زنا كيا ہے وہ بھى آپ كے پاس آيا! وہ آپ كے گھر كے متعلق اور پھر آپ كے بيڈ روم كى ہر چيز بتاتا ہے! آدمى يہ چيز تو بالكل برداشت نہيں كر سكتا.

اس كے ليے تو يہ بات سننے سے مر جانا زيادہ آسان ہے چاہے يہ جھوٹ ہى ہو، ليكن اس كے ساتھ اس كى سچائى كے اور بھى سے قرائن جمع ہوں تو پھر كيسے يہ برداشت ہو سكتا ہے؟!!

دوم:

آسمانى شريعت وہ احكام لائى ہے جس سے عزت كى حفاظت ہوتى ہے، اور باطل تہمت سے محفوظ رہتى رہتى ہے بہتان اور قذف كے نتيجہ ميں شريعت اسلاميہ نے مرد و عورت پر بہتان لگانے والے پر حد قذف لگائى ہے.

اگر كوئى شخص خاوند يا بيوى ميں سے كسى ايك پر زنا كى تہمت لگائے تو اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع كيا ہے كہ بہتان لگانے والے كو كوڑے لگائے جائيں، اور اس كى گواہى قبول نہ كى جائے، اور وہ فاسق كہلائيگا.

ليكن اگر وہ اس زنا كے چار واقعى گواہ پيش كر دے جنہوں نے اسے زنا كرتے ہوئے اس طرح ديكھا ہو جس طرح سرمہ لگانے ولى سلائى سرمہ دانى ميں داخل ہوتى ہے.

خاوند كو اس حكم سے خارج كيا ہے، وہ اس طرح كہ خاوند اگر اپنى بيوى پر زنا كى تہمت لگاتا ہے تو وہ چار گواہوں كى جگہ چار بار قسم اٹھائے كہ وہ زانيہ ہے، اور پانچويں بار كہے كہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ كى لعنت.

اگر وہ چار بار قسم اٹھا ليتا ہے تو تو پھر عورت رجم كى مستحق ٹھرے گى، اور عورت سے رجم اس طرح ختم ہو سكتا ہے كہ وہ بھى چار بار قسم اٹھائے كہ وہ جوٹھا ہے، اور پانچويں بار كہے اگر وہ جھوٹا ہو تو مجھ پر اللہ كى لعنت.

اگر عورت بھى قسم اٹھا جائے تو پھر خاوند اور بيوى كے مابين علحدگى كرا دى جائيگى، اور اس كے بعد وہ نہيں مليں گے، اسے لعان كہا جاتا ہے، اور يہ اس عورت كے خلاف گواہى دينے اور اپنے حمل كى نفى كريگا، اور جس بچے كو وہ جنے گى خاوند اس كى نفى كريگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر خاوند نے اپنى پاكباز بيوى پر تہمت لگائى تو خاوند پر حد واجب ہو گى، اور اس كے فاسق ہونے كا حكم لگايا جائيگا، اور اس كى گواہى قبول نہيں كى جائيگى، ليكن اگر وہ اس كى كوئى دليل پيش كر دے، يا پھر لعان كرے، اگر نہ تو وہ چار گواہ پيش كرے، يا پھر لعان نہ كرے تو يہ سب كچھ اس كو لازم ہوگا، امام مالك اور امام شافعى رحمہما اللہ كا يہى قول ہے.

اور ہمارے ليے اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو پاكباز عورتوں پر تہمت لگاتے ہيں اور پھر چار گواہ پيش نہيں كرتے انہيں اسى كوڑے ماروا ور ان كى ہميشہ كے ليے گواہى قبول نہ كرو، يہى لوگ فاسق ہيں .

يہ خاوند اور دسروں سب كو عام ہے، اور خاوند كے ساتھ اس ليے مخصوص ہے كہ اس كا لعان حد اور فسق كو ختم كرنے اور اس كى گواہى قبول كرنے كے ليے لعان كو گواہوں كے قائم مقام بنايا گيا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى:

" گواہى پيش كرو، وگرنہ تمہارى پيٹھ پر حد لگائى جائيگى "

اور جب لعان كيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" دنيا كا عذاب آخرت كے عذاب سے آسان ہے "

اور اس ليے بھى كہ اگر بہتان لگانے والا اپنے آپ كو جھٹلاتا ہے تو اسے حد لازم آئيگى، تو جب وہ مشروع كردہ گواہ پيش نہيں كرتا تو يہ لازم ہوگا بالكل اسى طرح جيسے اجنبى ہے "

ديكھيں: المغنى ( 9 / 30 ).

سوم:

بيوى كا زنا كرنا فسخ نكاح كو واجب نہيں كرتا، اور نہ ہى اس سے بيوى كا مہر ساقط ہوتا ہے، شريعت اسلاميہ نے تو ابتدا سے ہى زانى عورت كے ساتہ نكاح كرنے اور نكاح كو جارى ركھنے ميں فرق كيا ہے، اسى ليے تو زانى عورت سے نكاح كرنا جائز نہيں، اور نكاح ميں ہونے كے بعد زنا كرے تو اسے زوجيت ميں ركھنا حرام نہيں.

اگر وہ توبہ كر لے اور توبہ كے بعد اپنى اصلاح كرتے ہوئے اچھى و سچى توبہ ثابت كرے يہ چيز بہت اچھى ہے جو وہ اپنے ليے پيش كر رہى ہے، اور اگر وہ زنا پر اصرار كرے تو پھر اس ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، بلكہ خاوند كے ليے اسے طلاق دينا حلال ہے، اور اسى طرح اس كے ليے اسے تنگ كرنا تا كہ وہ اپنے آپ كو چھڑانے كے ليے فديہ دے يہ بھى حلال ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تمہارے حلال نہيں كہ تم عورتوں كو زبردستى ورثے ميں لے بيٹھو، انہيں اس ليے نہ رو ك ركھو كہ جو تم نے انہيں دے ركھا ہے اس ميں سے كچھ واپس لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ وہ كھلى برائى اور بےحيائى كريں، اور ان كے ساتھ اچھے طريقہ سے بود و باش ركھو! اگرچہ تم انہيں ناپسند كرو ليكن بہت ممكن ہے كہ تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں بہت بھلائى كر دے النساء ( 19 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند كو باغى عورت ميں پورى حد كا حق حاصل ہے جو اس پر ظلم كرنے والى ہے اور اس پر زيادتى كرنے والى، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے آدمى كا بيوى پر حق كے متعلق فرمايا ہے:

" اور تمہارا بستر وہ نہ روندھے جسے تم ناپسند كرتے ہو "

اس ليے اسے يعنى خاوند كو ابتدائى طور پر يعنى قذف ميں پہل كرنے كا حق حاصل ہے، اور يہ قذف يا تو اس كے مباح ہے يا پھر جب نسب سے انكار كى ضرورت ہو تو يہ واجب ہے.

اور اس پر دو ميں سے ايك چيز كى بنا پر مجبور ہوا جائيگا:

يا تو بيوى اعتراف كر لے تو اس كو حد لگائى جائيگى تو اس طرح خاوند كو پورا حق مل جائيگا، اور وہ عورت بھى سزا سے پاك ہو جائيگى، اور جو ہوا آخرت ميں اس كى سزا سے بچ جائيگى.

يا پھر وہ اللہ كے غضب كے ساتھ لوٹےگى، اور آخرت ميں اسے عذاب ہوگا، جو كہ دنيا كى سزا سے سخت اور بڑا ہے، كيونكہ خاوند اس كے ساتھ مظلوم ہے، اور مظلوم كو اس كا پورا حق دنيا ميں يا پھر آخرت ميں ديا جائيگا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

برائى كے ساتھ آواز بلند كرنے كو اللہ تعالى پسند نہيں فرماتا مگر مظلوم كو اجازت ہے .

بخلاف خاوند كے كيونكہ خاوند كے علاوہ كسى اور شخص كو اس عورت سے وطئ كا حق حاصل نہيں، چنانچہ اسے اس پر قذف كا بھى حق حاصل نہيں ہوگا، اور نہ ہى جب اس پر قذف لگائى جائے تو اسے لعان كا حق ہو گا؛ كيونكہ خاوند كى طرح وہ اس كا محتاج نہيں ہے، اور نہ ہى وہ اس كے بستر ميں مظلوم ہے.

لين اس فحاشى سے خاوند كے علاوہ پر بھى ظلم ہوتا ہے جو لعان كا محتاج نہيں؛ كيونكہ يہ فحش كام خاندان والوں كے ليے عار كا باعث ہے، اور فحش كام كے دوسرے اسباب سے بھى يہ عار حاصل ہوتى ہے.

اگر فحاشى اقرار كے ساتھ معلوم نہ ہو اور نہ ہى گواہى كے ساتھ تو حق پورا ہونے كے ليے اتنا ہى كافى ہے جو ظاہر ہوا ہے مثلا خلوت اور حرام نظر وغيرہ دوسرے اسباب جن سے اللہ سبحانہ و تعالى نے منع فرمايا ہے، اور يہ شريعت اسلاميہ كے محاس ميں شامل ہے.

ديكھيں: قاعدۃ فى المحبۃ ( 202 - 203 ).

اور مہر ساقط نہ ہونے كے بارہ ميں شيخ الاسلام كا كہنا ہے:

" صرف اس كے زنا كرنے سے مہر ساقط نہيں ہوگا، جيسا كہ اس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان دلالت كرتا ہے آپ نے لعان كرنے والے شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

" ميرا مال "

تو آپ نے فرمايا تھا:

" تيرا اس كے پاس كوئى مال نہيں، اگر تم سچے ہو تو يہ مال اس ليے اسے ملےگا كہ تم نے اس كى شرمگاہ حلال كى تھى اور اگر تم جھوٹے ہو تو يہ تمہارے ليے بہت دور ہے "

كيونكہ جب اس نے زنا كيا تو ہو سكتا ہے وہ توبہ كر بيٹھى ہو، ليكن اس كا زنا خاوند كے ليے عضل مباح كر ديتا ہے يعنى روكنا اور تنگ كرنا حتى كہ اگر وہ عليحدگى چاہتى ہو تو وہ اپنے آپ كو چھڑانے كے ليے فديہ دے، يا توبہ كر لے.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 15 / 320 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 83613 ) اور ( 42532 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

چہارم:

اس بنا پر آپ كو علم ہو چكا ہے كہ آپ كے اپنے پاس موجود قرائن كى بنا پر زنا واقع ہونے پر لعان كرنا جائز ہے، اور آپ كو اپنى قسموں كے اثرات كو برداشت كرنا ہوگا، اور اگر سلامتى چاہتے ہو تو پھر لعان كيے بغير اسے طلاق دے دو.

اور اگر آپ اس سے لعان كرو تو اسے اس كا مہر ديا جائيگا اور نہ تو اسے نفقہ ملےگا اور نہ ہى رہائش، الا يہ كہ اگر وہ حاملہ ہے اور حمل كى نفى نہيں كى جائيگى.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

نہ تو خاوند پر نفقہ ہوگا اور نہ ہى رہائش جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فيصلہ فرمايا تھا، اور يہ اپنے حكم ميں اس بائنہ عورت كے حكم كے موافق ہے جس ميں خاوند كو رجوع كا حق نہيں، اور يہ كتاب اللہ كے بھى موافق ہے، اس كا مخالف نہيں.

بلكہ لعان كى جانے والى عورت كے ليے نفقہ اور رہائش سافط ہونا تو طلاق بائن والى عورت سے ساقط ہونے سے اولى ہے؛ كيونكہ طلاق بتہ والى عورت سے عدت ميں شادى كرنے كى راہ ہے، اور اس عورت سے نہ تو عدت ميں نكاح كيا جا سكتا ہے اور نہ عدت كے بعد، اس ليے اصل ميں اس كے نفقہ اور رہائش واجب ہونے كى كوئى وجہ ہى نہيں كيونكہ مكمل طور پر عصمت ٹوٹ چكى ہے.

اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فيصلے بعض بعض كے موافق ہيں، اور سب ہى كتاب اللہ اس ميزان كے موافق ہيں جو اللہ نے نازل فرمائے ہيں تا كہ لوگوں ميں وہ عدل كے ساتھ فيصلہ كريں.

اور يہى قياس صحيح بھى ہے جيسا كہ ابھى تھوڑى دير بعد اسے پڑھ كر آپ كى آنكھيں ٹھنڈى ہو جائينگى.

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 356 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

"حديث كى رو سے جس عورت سے لعان كيا گيا ہو اس كے ليے نہ تو رہائش ہے اور نہ ہى نفقہ،اگر وہ حاملہ نہ ہو، اور اسى طرح اگر حاملہ ہو اور خاوند اس كے حمل سے نفى كر دے.

اور ہم كہتے ہيں: اس كى نفى كى جائيگى، يا ہم كہينگے: بستر ختم ہونے كے باعث اس كى نفى ہو جائيگى.

اور اگر ہم يہ كہيں كہ: خاوند كى نفى سے حمل كى نفى نہيں ہوگى، يا وہ نفى نہ كرے اور ہم كہيں: نسب اس كى طرف منسوب كيا جائيگا: تو عورت كو رہائش بھى ملےگى اور نفقہ بھى كيونكہ يہ حمل كى وجہ سے ہے، يا پھر يہ اس كى وجہ سے ہے جو موجود ہے تو يہ طلاق بائن والى عورت كے مشابہ ہوا.

اگر خاوند نے حمل كى نفى كى اور ماں نے بچے پر خرچ كيا اور خاوند كے علاوہ كسى اور رہائش ميں رہى اور اسے دودھ پلايا پھر لعان كرنے والے نے اسے اپنى طرف منسوب كرنا چاہا تو اسے اس كى طرف منسوب كيا جائيگا، اور نفقہ اور رہائش كا كرايہ اور دودھ پلانے كى اجرت خاوند پر لازم كى جائيگى؛ كيونكہ ماں نے تو يہ اس ليے كيا تھا كہ اس كا باپ نہيں ہے، اور جب يہ ثابت ہو گيا كہ اس كا باپ ہے تو يہ سب كچھ اس كو لازم ہوگا، اور اس پر واپس ہو جائيگا "

ديكھيں: المغنى ( 9 / 291 ).

اس سے آپ يہ جان سكتے ہيں كہ آپ كى بيوى جو رہائش اور نفقہ كا مطالبہ كر رہى ہے اگر اس سے لعان كرتے ہيں تو وہ آپ پر لازم نہيں، الا يہ كہ وہ حاملہ ہو تو آپ اس كے حمل كى بنا پر اس پرخرچ كريں.

اور اگر آپ اسے طلاق بائن دے ديں تو پھر اسے صرف اس كا مہر ہى ملےگا، اور آپ پر اس كا نفقہ لازم نہيں، اور نہ ہى اس كى رہائش، ليكن اگر حاملہ ہو يا پھر اس كے ساتھ آپ كى اولاد ہو تو آپ ان پر خرچ كريں، اور جو اس كے پيٹ ميں ہے اس پر بھى نہ كہ عورت پر.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ كرو حتى كہ وہ اپنا حمل وضح كر ليں الطلاق ( 6 ).

پنجم:

رہا طلاق والى عورت كو فائدہ ( متعہ ) دينا تو يہ وہ مال يا سامان ہے جو طلاق كے بعد مطلقہ عورت كو ديا جاتا ہے: اہل علم ميں اختلاف ہے كہ كونسى مطلقہ عورت مستحق ہوتى ہے؟

كچھ علماء تو عموم كے قائل ہيں ان كا كہنا ہے: ہر مطلقہ عورت كو دينا واجب ہے، چاہے دخول سے قبل طلاق دى گئى ہو يا طلاق كے بعد، مہر مقرر كيا گيا ہو يا مقرر نہ ہو.

اور بعض علماء كہتے ہيں كہ: اس مطلقہ عورت كو ديا جائيگا جسے دخول سے قبل طلاق دى گئى ہو اور اس كا مہر مقرر نہ كيا گيا ہو.

اور تيسرا قول يہ ہے كہ: اس مطلقہ عورت كو ديا جائيگا جسے دخول سے قبل طلاق دى گئى ہو چاہے مہر مقرر بھى كيا گيا ہو.

احتياط اسى ميں ہے كہ پہلے قول كو ليا جائے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ ر حمہ اللہ نے اسے ہى راجح كہا ہے، اور معاصر علماء كرام ميں سے شيخ شنقيطى اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ بھى شامل ہيں.

ليكن شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے قيد لگائى ہے كہ اگر شادى كو زيادہ عرصہ ہو گيا ہو تو يہ واجب ہے.

اور يہ متعہ اور فائدہ اتنا نہيں ہونا چاہيے كہ طلاق دينے والے پر بوجھ بن جائے، بلكہ اس كى وسعت و استطاعت كے مطابق ہوگا، اسى ليے شريعت نے اس كى تعيين اور تحديد نہيں كى.

شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تحيقيق يہى ہے كہ فائدہ ( متعہ ) كى مقدار ميں شريعت نے كوئى تحديد نہيں كى كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

وسعت پر اپنى وسعت كے مطابق اور تنگ دست پر اس كى استطاعت كے مطابق البقرۃ ( 236 ).

اس ليے اگر خاوند اور بيوى كسى معين مقدار پر متفق ہو جائيں تو معاملہ واضح ہے، اور اگر وہ اختلاف كريں تو پھر حاكم اور فيصلہ كرنے والے اس مسئلہ كو حل كرنے كى كوشش كريگا، اور درج ذيل فرمان بارى تعالى كى روشنى ميں مقرر كيا جائيگا:

وسعت والے پر اس كى وسعت كے مطابق البقرۃ ( 236 ).

يہ بالكلل ظاہر ہے، اور اللہ كے تعالى كا فرمان:

اور انہيں فائدہ ( متعہ ) دو البقرۃ ( 236 ).

اور فرمان بارى تعالى:

اور طلاق واليوں كے ليے فائدہ ہے البقرۃ ( 241 ).

كا ظاہر يہ تقاضا كرتا ہے كہ بالجملہ فائدہ دينا واجب ہے، برخلاف امام مالك اور ان كى موافقت كرنے والوں كے وہ اصلا اسے واجب نہيں كہتے.

ديكھيں: اضواء البيان ( 1 / 192 ).

ہم آپ كو پہلے بتا چكے كہ آپ كى بيوى كا زنا كرنا آپ كے ليے اسے روكنے اور تنگ كرنے كو مباح كر ديتا ہے حتى كہ جو كچھ ہوا ہے اس كى بنا پر وہ آپ سے جان چھڑانے كے ليے فديہ ادا كرے، اور اپنے سارے يا بعض مالى حقوق سے دستبردار ہونے كے عوض ميں طلاق اختيار كر لے.

اور اگر وہ نہ تو فديہ دے اور نہ ہى اپنے مالى حقوق سے دستبردار ہو تو ہم آپ كے ليے يہى اختيار كرتے ہيں كہ آپ اس عورت كو طلاق دے ديں چاہے اس كا خرچ كتنا بھى ہو.

ليكن آپ اس كے ليے ايسا ممكن نہ ہونے ديں كہ جتے مال كا فيصلہ ہو اس سے زائد حاصل كرے، يہ اس صورت ميں ہے كہ اگر وہ اپنا معاملہ عدالت ميں لے جاتى ہے، اور اپنے اوپر ظلم سے بچنے كے ليے آپ كو حيلہ كرنا بھى جائز ہے.

ميرى مراد يہ ہے كہ آپ اسے ظلم كرنے سے روكيں اور مقرر كردہ مہر سے زائد نہ لينے ديں، اور جو حقوق اس كے ليے شرعى طور پر ثابت ہين اس سے زائد حاصل نہ كرنے ديں، جس كے بارہ ميں ہم اوپر كى سطور ميں اشارہ كر چكے ہيں، اور اس كے حق كو ساقط كرنے كے ليے آپ حيلہ سازى نہيں كر سكتے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب