اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

بيوى پر تہمت لگانے كے بعد نصف مہر كے بدلے طلاق دينا اور اس مال كا حكم

83613

تاریخ اشاعت : 24-11-2009

مشاہدات : 8175

سوال

ميں دين كا التزام كرنے والى لڑكى ہوں، ميرے اور خاوند كے درميان كچھ اختلافات پيدا ہو گئے ( ميرى ايك بچى بھى ہے ) جس كى بنا پر ميں اپنے ميكے چلى گئى كيونكہ خاوند كو ميرے متعلق شك ہوا اور اس نے مجھ پر ميرى عزت وشرف ميں بغير كسى مطمئن كرنے والے سبب كے تہمت لگائى پھر معذرت كر لى اور پھر دوبارہ تہمت لگائى اور كئى ايك الزامات بھى، يہ كئى بار ہو چكا ہے؛ جس سے مجھے يقين ہو گيا كہ ميرے خاوند كو وسوسہ كى بيمارى ہے اور ميں اس كو برداشت نہ كر سكى جس كى بنا پر اپنے ميكے چلى آئى.
ميكے آنے كے بعد ميں يہاں چار ماہ تك رہى اس عرصہ ميں ميرے خاوند كا عناد اور بغض اور بھى بڑھ گيا اور وہ بغير كسى دليل كے اپنے موقف پر قائم رہا، جب ميرا بھائى اس كو سمجھانے كے ليے گيا تو بھى وہ اپنے موقف پر قائم تھا، بلكہ اس نے مجھ سے توبہ كرنے كا مطالبہ كيا، اور ان دونوں كے درميان تلخ كلامى بھى ہوئى اور اس نے ميرے والد كى بھى عزتى كى كہ انہوں ميرى تربيت اچھى نہيں كى.
معاملہ جب اس حد تك پہنچ گيا تو ميرے والد اور بھائى نے مجھے اس سے طلاق لينے پر اصرار كيا، وگرنہ دوسرى صورت ميں ميرا مسئلہ حل كرنے كے ليے عدالت ميں جائيں گے اور اس كو الزامات كا ثبوت پيش كرنا ہو گا، چنانچہ ميرے خاوند نے طلاق كے بدلے نصف مہر كا مطالبہ كيا، ليكن كچھ عرصہ بعد اس نے بغير كچھ ليے ہى مجھے طلاق دے دى، اور اس مہر سے خاموش ہو گيا اور دوبارہ مال كا مطالبہ نہيں كيا.
اور الحمد للہ اب اللہ عزوجل نے مجھے اس كے نعم البدل ميں ايك نيك و صالح خاوند بھى عطا فرما ديا ہے، ميرے دوسرے خاوند نے مجھے متنبہ كيا كہ ہو سكتا ہے تمہارے پہلے خاوند كا تم پر كوئى مالى حق نہ ہو، اور مجھے خدشہ ہے كہ ميں كہيں حرام مال نہ كھاؤں اور لوگوں كے حقوق غصب كرنے كا باعث نہ بن جاؤں چاہتى ہوں كہ برائے مہربانى مجھے اس مسئلہ ميں فتوى ديں.
يہ علم ميں ركھيں كہ ميں اس مال كى مالك نہيں اور نہ ہى ميں نے اس سے بچى كے ليے كوئى اخراجات طلب كيے ہيں بلكہ وہ خود ہى بعض اوقات كچھ نہ كچھ بھيج ديتا ہے، بعض اوقات نہيں ديتا، تو كيا اس كا مجھ پر كوئى مالى حق ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند كا اپنى بيوى پر تہمت لگانا كبيرہ گناہ شمار ہوتا ہے اور يہ حد كا موجب بنتا اور خاوند كى گواہى كو رد كرنے كا باعث بنتا ہے، اس فحاشى كے ثبوت كے ليے شرعى دليل ہونا ضرورى ہے يا پھر وہ آپس ميں لعان كريں يعنى قسميں اٹھائيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جب خاوند اپنى پاكباز بيوى پر تہمت لگائے تو خاوند پر حد واجب ہو گى اور اس كو فاسق كا حكم ديا جائيگا اور اس كى گواہى قبول نہيں ہو گى، الا يہ كہ وہ اس تہمت كى كوئى دليل پيش كرے يا پھر لعان كرے، اور اگر وہ چار گواہ پيش نہيں كرتا يا پھر لعان كرنے يعنى قسميں اٹھانے سے بھى احتراز كرتا ہے تو اس پر يہ سب لازم اور لاگو ہو گا، امام مالك اور امام شافعى رحمہما اللہ كا يہى قول ہے...

اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

اور جو لوگ پاكدامن عورتوں پر زنا كى تہمت لگائيں پھر چار گواہ پيش نہ كر سكيں تو انہيں اسى كوڑے لگاؤ اور كبھى ان كى گواہى بھى قبول نہ كرو، يہ فاسق لوگ ہيں النور ( 4 ).

اور يہ حكم خاوند يا دوسرے كے ليے عام ہے، خاوند كو اس ليے خاص كيا گيا ہے كہ اس كا لعان كرنا يعنى قسميں اٹھانا گواہى كے قائم مقام ہے كہ لعان كرنے سے اس پر حد جارى نہيں ہو گى اور وہ فاسق قرار نہيں ديا جائيگا اور اس كى گواہى رد نہيں ہو گى.

اور اس ليے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" دليل پيش كرو وگرنہ آپ كو حد لگے گى "

اور جب انہوں نے لعان كيا تو آپ نے فرمايا:

" دنيا كا عذاب آخرت كے عذاب سے آسان ہے "

اور اس ليے بھى كہ اگر تہمت لگانے والا اپنے آپ كو جھٹلاتا ہے تو اس پر حد لازم آتى ہے، چنانچہ جب وہ مشروع دليل پيش نہ كرے تو اجنى كى طرح اس پر حد لازم ہو گى "

ديكھيں: المغنى ( 9 / 30 ).

اس بنا پر خاوند كو اپنے آپ اور اپنى بيوى كے متعلق اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے، اسے چاہيے كہ وہ غلط اور برى كلام سے باز آ جائے، اور اپنى بيوى پر كلام اور طعن كرنا اس كى اپنى عزت و شرف ميں طعن شمار ہوتى ہے، اسے چاہيےكہ وہ اپنے نفس كو جھٹلائے اور اپنى بيوى كو اس افترا پردازى سے برى كرے.

اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو پھر اس كے اس فعل پر اللہ كى جانب سے جو كچھ لاگو كيا گيا ہے وہ اس كا مستحق ٹھرے گا اسے حد بھى لگے گى اور اس كى گواہى بھى كبھى قبول نہيں كى جائيگى اور وہ فاسق ٹھرے گا، اور بيوى كو اس سےطلاق كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہوگا، اور خاوند كو بيوى كے مكمل حقوق ادا كرنا ہونگے.

دوم:

بيوى پر ناحق اور باطل تہمت لگا كر اسے تنگ كرنا اور اذيت دينا تا كہ وہ مہر چھوڑ دے يا مہر كا كچھ حصہ چھوڑ دے يہ حرام عمل ہے، الا يہ كہ بيوى واضح اور ظاہر فحاشى كى مرتكب ٹھرے، اور اگر خاوند ايسا كرے تو اس كے نتيجہ ميں بيوى جو كچھ چھوڑے گى اس كا خاوند مستحق نہيں، بلكہ اسے بيوى كو واپس كرنا واجب ہو گا، اور اگر وہ اس كو طلاق دينے سے انكار كرتا ہے تو بيوى اپنا فديہ دے كر يا مہر چھوڑ كر يا كچھ مہر دے كر اس سے خلاصى حاصل كر سكتى ہے.

اور اگر خاوند ظالم اور جھوٹا ہو گا تو اس نے جو كچھ ليا ہے وہ حرام اور ناحق ہے، اور اگر وہ سچا ہے تو اس نے جو كچھ ليا وہ اس كے ليے حلال ہو گا، ليكن اسے ثبوت پيش كرنا ہو گا جو اس سے حد كو ختم كرے يعنى يا تو چار گواہ پيش كرے يا پھر لعان كرے يعنى قسميں اٹھائے.

يہ تو اس صورت ميں ہے جب وہ بيوى پر اعلانيہ تہمت لگائے اور اسے مشہور كرے، ليكن اگر اس نے كوئى ايسا فحش كام كيا جو اس عورت اور اس كے رب كے علاوہ كسى اور كو علم نہيں تو پھر خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ اس سے عضل اورتنگى كرے تا كہ وہ اپنے آپ كو چھڑانے كے ليے فديہ دے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص نے اپنى بيوى پرفحاشى كى تہمت لگائى؛ حالانكہ اسنے اس عورت كے پاس كوئى ايسى چيز نہيں ديكھى جسے شريعت منكر قرار ديتى ہو، ليكن اس نے يہ دعوى كيا كہ اس نے اسے شادى كى تقريب ميں بھيجا تھا اور پھر جاسوسى كى اور اسے شادى ميں نہ پايا اور بيوى نے اس كا انكار كيا، پھر وہ عورت كے اولياء كے پاس گيا اور ان كو يہ واقعہ بتايا تو انہوں نے اس كى بيوى كو بلايا تا كہ وہ خاوند كے اس بيان كا مقابلہ كرے اور جواب دے، تو وہ بيوى مار كے ڈر سے نہ آئى اور اپنے ماموں كے گھر چلى گئى، پھر خاوند نے بيوى كے حقوق كو ختم كرنے كے ليے اسے دليل بنا ليا اور دعوى كيا كہ وہ اس كى اجازت كے بغير گھر سے نكلى تھى تو كيا يہ بيوى كے حقوق باطل كرنے كا باعث ہو گا، اور جو اس نے انكار كيا ہے وہ شرع ميں انكار شمار ہو گا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تمہارے ليے حلال نہيں كہ زبردستى عورتوں كو ورثے ميں لے بيٹھو انہيں اس ليے روك نہ ركھو كہ جو تم نے انہيں دے ركھا ہے اس ميں سے كچھ لے لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ وہ كوئى واضح برائى اور بے حيائى كريں النساء ( 19 ).

اس ليے آدمى كے ليے حلال نہيں كہ وہ عورت كو روك ركھے اور اسے تنگ كرے تا كہ وہ اپنے مہر كا كچھ حصہ اسے واپس كر دے، اور نہ ہى اس وجہ سے وہ اس كو مار سكتا ہے، ليكن جب عورت واضح طور پر كوئى فحاشى كى مرتكب ہو تو وہ اسے روك سكتا اور تنگ كر سكتا ہے تا كہ وہ اس سے فديہ دے كر خلاصى حاصل كرے، اور اسے مارنے كا بھى حق ہے، اور يہ اس ميں ہے جو مرد اور اللہ كے درميان ہو.

اور عورت كے گھر والوں كو چاہيے كہ ديكھيں حق كس كے ساتھ ہے جس كے ساتھ حق ہو اس كى معاونت كريں، اگر انہيں پتہ چل جائے كہ عورت نے ہى اللہ كى حدود پامال كى ہيں اور خاوند كو اس كے بستر ميں اذيت و تكليف سے دوچار كيا ہے اور وہى ظلم و زيادتى كرنے والى ہے لہذا وہ فديہ دے كر اپنى جان چھڑائے، اور جب وہ كہتا ہے كہ ميں نے اسے شادى كى تقريب ميں بھيجا تھا اور وہ نہيں گئى تو وہ اس سے دريافت كرے كہ كہاں گئى تھى، اگر تو وہ ايسے لوگوں كے پاس جانے كا كہتى ہے جن ميں كوئى شك نہيں اور ان لوگوں نے اس كے جانے كى تصديق بھى كى، يا انہوں نے كہا كہ ہمارے پاس نہيں آئى اور نہ ہى وہ شادى ميں گئى تو اس طرح يہ شك ہو گا اور خاوند كے قول كو تقويت پہنچتى ہے.

اور وہ مشين جو وہ اپنے والد كے گھر سے لائى ہے اسے ہر حال ميں واپس كرنا ہو گا، اور اگر وہ صلح كر ليں تو يہ صلح بہتر ہے.

اور جب بھى عورت توبہ كر لے خاوند كو اسے اپنے پاس ركھنا جائز ہے اور اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ توبہ كرنے والا بالكل ايسے ہى جيسے كسى كا كوئى گناہ نہيں.

اور اگر وہ اس كے خاوند كے پاس واپس جانے پر متفق نہ ہوں تو وہ مہر سے برى الذمہ ہو جائے اور عورت كو خاوند سے خلع كرنا چاہيے؛ كيونكہ كتاب و سنت كے مطابق خلع كرنا جائز ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تمہيں خدشہ ہو كہ وہ دونوں اللہ كى حدود قائم نہيں كر سكيں گے تو ان دونوں پر اس ميں كوئى گناہ نہيں جو وہ عورت فديہ دے .

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 283 - 284 ).

سوم:

ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ خاوند كا آپ پر كوئى حق نہيں، اور اس نے جو نصف مہر طلب كيا تھا وہ شرعى حق نہيں، اور ظاہر ہوتا ہے كہ اس نے كسى كے بتانے پر اس مسئلہ سے رجوع كر ليا ہے جس كى بنا پر اس نے دوبارہ اس كا مطالبہ بھى نہيں كيا، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس نے نصف مہر كو بچى كى پرورش اور اس كى ديكھ بھال كے اخراجات شمار كر ليا ہو.

بہر حال آپ پر اس نے جو بہتان لگايا ہے اسكےوہ نہ تو چار گواہ پيش كر سكا ہے اور نہ ہى اس نے لعان كيا ہے، اور نہ وہ كچھ ايسى چيز ديكھتا ہے جو اسے اپنے اور رب كے درميان گنہگار نہ بناتى ہو، اور يہ سب كچھ تيرے ليے حق بناتى ہے نہ كہ اس كے ليے ـ آپ نے جو سوال كيا ہے اور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كے مطابق تو يہى ہے ـ اور اس نے جو نصف مہر كى شرط لگائى ہے اس كو اس كا حق نہيں.

اللہ تعالى آپ اور آپ كے نئے خاوند ميں بركت عطا فرمائے جسے اللہ نے آپ كے ليے آسان كيا ہے، اور آپ كو اس سوال اور پہلے خاوند كےحقوق كے متعلق استفسار كرنے پر اللہ جزائے خير عطا فرمائے، يہ آپ كے خلق عظيم اور دين متين كى دليل ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ جو جزائے خير عطا فرمائے اور اسے آپ اور آپ كى بيٹى كے ليے بہتر خلف بنائے،اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كرے، اور آپ دونوں كو نيك و صالح اولاد عطا فرمائے.

اور اللہ تعالى سے ہمارى يہ بھى دعا ہے كہ وہ آپ كے پہلے خاوند كو سچى توبہ كرنے كى توفيق عطا فرمائے، اور اگر وہ مريض ہے تو اسے شفايابى نصيب كرے، اور اس كو بھى بہترى عطا كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب