الحمد للہ.
اول:
ہر وقت اور ہر حالت ميں بيوى سے لطف اندوز ہونا جائز ہے، الا يہ كہ جس سے شريعت نے منع كيا ہے كہ دبر ميں وطئ كرنا حرام ہے، اور اسى طرح حيض يا نفاس كى حالت ميں بھى جماع كرنا حرام كيا گيا ہے.
رہا مسئلہ حاملہ بيوى كا تو اس سے جماع كرنے كى حرمت كى كوئى دليل نہيں ہے، ليكن اگر خدشہ ہو بچے كو ضرر و نقصان پہنچےگا، اور اس ضرر كا اندازہ بھى تجربہ كار ليڈى ڈاكٹر ہى لگا سكتى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تمہارى بيوياں تمہارى كھيتي ہيں تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ البقرۃ ( 223 ).
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہے:
الحرث: يہ بچہ پيدا ہونے كى جگہ ہے.
تو تم اپنى كھيتى ميں آؤ .
يعنى جيسے چاہو آگے سے يا پھچلى جانب سے ايك ہى جگہ يعنى بچہ پيدا ہونے والى جگہ ميں جيسا كہ احاديث سے ثابت ہے.
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 588 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
حمل كے عرصہ ميں خاوند كے ليے بيوى سے كب جماع سے اجتناب كرنا واجب ہوتا ہے ؟
اور كيا ـ خاص كر حمل كے پہلے تين ماہ كے دوران ـ بيوى سے جماع كرنے سے بچے كے ليے نقصاندہ ہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" جب حمل كو ضرر اور نقصان نہ ہو تو حاملہ عورت سے جماع كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ حائضہ عورت سے جماع كرنا ممنوع ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور آپ سے حيض كے بارہ ميں دريافت كرتے ہيں، آپ انہيں كہہ ديجئے كہ حيض كى حالت ميں عورتوں سے عليحدہ رہو، اور ان كے پاك ہونے تك ان كے قريب مت جاؤ، جب وہ پاك صاف ہو جائيں تو پھر جہاں سے اللہ نے حكم ديا ہے وہيں سے ان كے پاس آؤ، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والوں اور پاك صاف رہنے والوں سے محبت كرتا ہے البقرۃ ( 222 ).
اور نفاس والى عورت بھى اس طرح ہے كہ اس سے پاك ہونے تك جماع نہيں كيا جائيگا، اور اسى طرح حج اور عمرہ كا احرام باندھنے والى عورت سے بھى " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ بكر ابو زيد.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 353 ).
اور شيخ عبد اللہ بن منيع حفظہ اللہ سے حاملہ عورت سے جماع كے بارہ ميں دريافت كيا گيا.
ان كا جواب تھا:
" شريعت اسلاميہ ميں حاملہ عورت سے خاوند كا جماع كرنا ممنوع نہيں ہے، بلكہ يہ نہى تو حيض اور نفاس والى عورت كے ساتھ خاص ہے، ليكن اگر تجربہ كار ڈاكٹر كسى خاص حالت كى بنا پر يہ فيصلہ كريں كہ اس سے جماع كرنا اس كى صحت كے ليے نقصاندہ ہے تو يہ حالت خاص ہے، اس پر قياس نہيں كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: فتاوى و بحوث الشيخ عبد اللہ بن منيع ( 4 / 228 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 21725 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
دوم:
رہا مسئلہ حمل كے آخرى مہينہ ميں جماع كرنا بيوى كے ليے نقصاندہ ہے يا نہيں ؟
اس كے بارہ ميں تجربہ كار ليڈى ڈاكٹر سے رابطہ كيا جائے كيونكہ يہ عورت كى طبيعت اور حمل كے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، اور حمل كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے اثرات كے اعتبار سے ہوگا، جو مختلف ہوتے ہيں، اور اسے ماہر ليڈى ڈاكٹر ہى بتائےگى.
ليكن اصل كے اعتبار سے يہى ہے كہ حمل كى حالت ميں جماع كرنے سے نہ تو عورت كو كوئى نقصان ہے، اور نہ ہى بچہ كوكوئى ضرر ہوتا ہے.
بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو پيٹ ميں پائے جانے والے بچے كو كھيتى سے مشابہت دى ہے، اور آدمى كى منى كو اس پانى سے جو اس كھيتى كو لگايا جاتا ہے.
يہ اس بات كى دليل ہے كہ آدمى كے پانى سے ماں كے پيٹ ميں بچے كو فائدہ ہوتا ہے، جس كا معنى يہ ہوا كہ حالت حمل ميں بيوى كے ساتھ جماع كرنا اور رحم ميں انزال كرنے سے فائدہ ہوتا ہے نقصان نہيں.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
وطئ بچے كى سماعت اور بصارت ميں اضافہ كا باعث بنتى ہے "
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 140 ).
رہا مسئلہ كہ بچے كى پيدائش جلد ہو جاتى ہے، يہ قول صحيح نہيں، الا يہ كہ اگر جماع بڑى زبردستى اور شدت سے كيا جائے، اور عورت كا رحم كمزور ہو تو پھر تجربہ كار لوگوں كا قول يہى ہے.
اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى حاملہ بيوى كى نفسيات كا بھى خيال كرے، اور اس كى تكليف كا بھى، اور خاص كر آخرى ايام ميں كيونكہ اس كے ليے تو بيٹھنا بھى دوبھر ہو جاتا ہے، اس ليے خاوند كو جماع كے ليے مناسب حالت اختيار كرنى چاہيے تا كہ بيوى كو ضرر نہ ہو، اور نہ ہى بچے كو نصان پہنچے.
واللہ اعلم .