الحمد للہ.
عقيقہ كے بارہ ميں سنت يہ ہے كہ بچہ كى جانب سے دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرا ذبح كيا جائے؛ اس كى دليل ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:
عمرو بن شعيب اپنے باپ اور اپنے دادا سے روايت كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كا بچہ پيدا ہو اور وہ اس كى جانب سے قربانى كرنا چاہے تو وہ ذبح كر لے، بچے كى جانب سے كفائت كرنے والے دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ذبح كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2842 )، علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
اہل علم كا اس ميں اختلاف ہے كہ آيا عقيقہ ميں اونٹ اور گائے ذبح كى جا سكتى ہے يا نہيں ؟
جمہور علماء كہتے ہيں كہ ان كا عقيقہ جائز ہے، ليكن بعض علماء كرام اس سے منع كرتے ہيں؛ كيونكہ سنت ميں بكرے كا ہى آيا ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" عقيقہ ميں بھى وہى جنس كفائت كر جاتى ہے جو جنس قربانى ميں كفائت كرتى ہے، جو كہ اونٹ، گائے اور بكرى ہيں، اس كے علاوہ كوئى اور كفائت نہيں كرتا، احناف شافعيہ اور حنابلہ كے ہاں يہ متفقہ چيز ہے، اور مالكيہ كے ہاں راجح يہى ہے، اس كے مقابلہ ميں قول يہ ہے كہ يہ بكرى كى جنس كے علاوہ نہيں " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 30 / 279 ).
افضل يہى ہے كہ عقيقہ ميں بكرا ہى ذبح كرنا چاہيے تا كہ سنت پر عمل ہو يہاں اونٹ اور گائے يا بچھڑے كى بجائے بكرى اور مينڈھا اولى اور بہتر ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قربانى ميں مؤلف رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس ميں سب سے افضل اونٹ اور پھر گائے، اور پھر بكرا ہے، اس سے مراد يہ ہے كہ اگر وہ پورا اونٹ اپنى جانب سے ذبح كرتا ہے تو يہ بكرے سے افضل ہے.... ليكن عقيقہ ميں بكرا پورے اونٹ سے افضل ہے؛ كيونكہ سنت ميں بكرے كا ہى ذكر آيا ہے، تو اس طرح يہ اونٹ سے افضل ہوا " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 424 ).
اس بنا پر عقيقہ ميں بچھڑا ذبح كرنے ميں كوئى حرج نہيں ليكن دو بكرے افضل ہيں، اور مسلمان كو چاہيے كہ وہ عقيقہ كے جانور ميں بھى وہى شروط مد نظر ركھے جو قربانى ميں ہيں، اور وہ شروط يہ ہيں: گائے دو سال كى مكمل اور تيسرے برس ميں داخل ہو چكى ہو، اس كا بيان سوال نمبر ( 41899 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، اس ليے اس سے چھوٹى عمر كے بچھڑے كا عقيقہ ميں ذبح كرنا جائز نہيں ہے.
واللہ اعلم .