سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رمضان كے روزوں كى دوسرے رمضان تك قضاء بھول جانا

سوال

اگر كوئى شخص رمضان كى قضاء كے روزے ركھنا بھول جائے اور دوسرا رمضان شروع ہو جائے تو كيا حكم ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فقھاء كرام كا اتفاق ہےكہ بھول چوك ايسا عذر ہے جس كى بنا پر ہر قسم كى مخالفت ميں گناہ اور مؤاخذہ نہيں ہوتا، اس كے كتاب و سنت ميں بہت دلائل پائے جاتے ہيں كہ بھول چوك معاف ہے.

ليكن فقھاء كرام اس ميں ضرور اختلاف كرتے ہيں كہ جس مخالفت كے نتيجہ ميں فديہ لازم آتا ہو تو كيا وہ بھى معاف ہے يا نہيںز

خاص كر رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء بھول جانا حتى كہ دوسرا رمضان شروع ہو جائے تو اس سلسلہ ميں بھى فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ دوسرے رمضان كے بعد ان روزوں كى قضاء كرنى لازم ہے, بھول جانے سے يہ قضاء ساقط نہيں ہوگى.

ليكن اس ميں قضاء كے ساتھ فديہ واجب ہونے ( يعنى مسكين كو كھانا كھلانے ) ميں فقھاء كرام كا اختلاف ہے اور اس سلسلہ ميں دو قول ہيں:

پہلا قول:

قضاء كے ساتھ فديہ لازم نہيں ہوگا، كيونكہ بھول جانا ايسا عذر ہے جس سے گناہ اور فديہ دونوں اٹھ جاتے ہيں.

اكثر شافعى اور بعض مالكى حضرات كا يہى قول ہے.

ديكھيں: تحفۃ المحتاج تاليف ابن حجر الہيتمى ( 3 / 445 ) اور نھايۃ المحتاج ( 3 / 196 ) اور منح الجليل ( 2 / 154 ) اور شرح مختصر خليل ( 2 / 263 ).

دوسرا قول:

اسے قضاء كےساتھ فديہ ادا كرنا بھى لازم ہے، كيونكہ بھول جانے سے صرف گناہ ساقط ہو گا.

شافعى حضرات سے خطيب شربينى كا مسلك يہى ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس سے صرف گناہ ساقط ہوگا فديہ نہيں "

ديكھيں: مغنى المحتاج ( 2 / 176 ).

بعض مالكى حضرات بھى يہى بيان كرتے ہيں.

ديكھيں: مواھب الجليل شرح مختصر خليل ( 2 / 450 ).

درج ذيل تين دلائل كى بنا پر ان شاء اللہ اس ميں راجح قول پہلا ہے كہ اس پر قضاء ہے فديہ نہيں:

پہلى دليل:

ان آيات اور احاديث كا عموم جن ميں بھول جانے والے سے مؤاخذہ نہ كرنا بيان ہوا ہے:

مثلا ارشاد بارى تعالى ہے:

اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائيں يا ہم سے غلطى ہو جائے تو ہمارا مؤاخذہ نہ كرنا البقرۃ ( 286 ).

دوسرى دليل:

اصل ميں برى الذمہ ہونا ہے، اور دليل كے بغير كفارہ يا فديہ دينا جائز نہيں ہے، اس مسئلہ ميں كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جو فديہ دينے كو تقويت ديتى ہو.

تيسرى دليل:

اصل ميں اگر كوئى شخص عمدا روزوں كى قضاء ميں تاخير كرتا ہے تو بھى اس پر فديہ لازم ہونے ميں اختلاف پايا جاتا ہے.

احناف اور ظاہرى حضرات عدم وجوب كے قائل ہيں، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نےاختيار كيا ہے كہ فديہ دينا صرف مستحب ہے، كيونكہ شريعت مطہرہ ميں صرف بعض صحابہ كا عمل ہى ملتا ہے، اور يہ چيز تقويت كا باعث نہيں جس كى بنا پر اسے لوگوں پر لازم كيا جائے، چہ جائيكہ عذر كى حالت ميں جسے اللہ بھى عذر تسليم كرتا ہے كى حالت ميں لازم كيا جائے.

آپ مزيد تفصيل ديكھنےكے ليے سوال نمبر ( 26865 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ:

اس شخص كے ذمہ صرف روزوں كى قضاء ہوگى، اور بطور فديہ كھانا نہيں كھلائيگا، اس ليے وہ اس رمضان كے گزر جانے كے بعد پہلے رمضان كے روزوں كى قضاء ميں روزے ركھےگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب