سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

شريعت اسلاميہ ميں ماں كا اپنى بيٹى پر عظيم حق ہے ليكن خاوند كو اس سے بھى عظيم حق حاصل ہے

110845

تاریخ اشاعت : 15-10-2012

مشاہدات : 7888

سوال

ميرى والدہ جس بات كے پيچھے پڑ جائے اسے چھوڑتى نہيں، اور اس كے مطالبات ختم ہونے كا نام نہيں ليتے، ميرے ساتھ ميرے خاوند كے متعلق لڑتى رہتى ہے حالانكہ ميرا خاوند مجھ اور ميرى اولاد كے ساتھ بہت ہى اچھا برتاؤ كرتا ہے، ميرى والدہ چاہتى ہے كہ ميرا خاوند اسے سير و تفريح ميں اپنے ساتھ لے كر جائے، اس كے اور بھى كئى مطالبات ہيں، اور بہت زيادہ خرچ كرتى ہے جسے ميرا خاوند پسند نہيں كرتا.
ميرا خاوند ايك ڈاكٹر ہے اور اپنى ساس كو اتنا وقت نہيں دے سكتا، اور پھر وہ سمجھتا ہے كہ ميں اور ميرى والدہ اكٹھى نہيں رہ سكتيں، ميرى والد سال ميں كم از كم تين يا چار بار ہميں ملنے آتى ہے، اور چاہتى ہے اسے روزانہ سير و تفريح كے ليے لے جاؤں چاہے بچوں اور گھر كو وقت نہ بھى ديا جائے.
والدہ تجارت بھى كرتى ہے ليكن اس كے باوجود كہتى ہے تم اپنے بہن بھائى كو اپنے پاس ركھو جن كى عمر سولہ اور اٹھارہ برس ہے، اور اس كے ليے خاوند كى اجازت كى بھى ضرورت نہيں، دو برس قبل والد صاحب فوت ہوئے تو انہوں نے ميرى يونيورسٹى ميں تعليم كے ليے قرض ليا تھا اور يہ قرض واپس كرنے سے انكار كر ديا جس كى بنا پر ميرى شہرت اتنى خراب ہوئى كہ ميں اپنے نام پر كوئى چيز بھى نہيں خريد سكتى.
اس سے بھى بڑھ كر والد فوت ہونے سے كچھ عرصہ قبل ميرى والدہ نے والد كى سارى جائداد اور مال اپنے نام كروا ليا تا كہ ہم ميں تقيسم كرنا آسان رہے، ہم چار بہنيں اور ايك بھائى ہيں، ليكن والد كى وفات كے بعد كہنے لگى وہ سب كچھ توم ميرے نام ہے، ميں نے تمہارے والد كے قرض كى ادائيگى كے ليے بہت كچھ ادا كيا ہے، قرض كى ادائيگى سے ہى اس كى تجارت يہاں تك پہنچى ہے، اس ليے وہ مرنے تك سارا مال اور جائداد خود ہى ركھےگى.
جب والدہ نے ظاہر كيا كہ وہ والد كے قرض كى ادائيگى كرنا چاہتى ہے تو ميں نے كسى كو بتائے بغير والدہ كو تقريبا ايك لاكھ ڈالر ديے، ليكن والدہ نے قرض ادا كرنے كى بجائے گرميوں ميں رہنے كے ليے ايك گھر خريد ليا، اور بالكل انكار كر ديا كہ اسے ميں نے كچھ ديا ہے، شادى سے چھ برس قبل يہ قرض ليا گيا تھا اور خاوند كو اس كے متعلق علم بھى نہيں ہے اب يہ قرض ميرے نام ہے اور روز بروز اس ميں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس كے علاوہ ميرى والدہ ميرے خاوند كے ساتھ برا سلوك كرتى اور اسے گالياں بھى نكالتى ہے اور مجھے اس كى نافرمانى كرنے كا كہتى رہتى ہے، كہ والدہ كا تجھ پر خاوند سے بھى زيادہ حق ہے، اور مجھے اپنے خاوند كو معذرت كرنے پر مجبور كرتى ہے كہ وہ اپنى ساس سے معذرت كرے حالانكہ اس نے كوئى غلطى بھى نہيں كى، ہم دو ملكوں مصر اور امريكہ ميں بٹے ہوئے ہيں، بلكہ كچھ ايام قبل والدہ نے دھمكى بھى دى كہ اگر تم ماں سے محبت كرتى اور اللہ كى نافرمان نہيں كرنا چاہتى تو اپنى اولاد كے ساتھ مجھے ملنے آؤ، ليكن ميرا خاوند اكيلا رہنے پر راضى نہيں، ماں كہتى ہے كہ خاوند كى بات نہ سنو بلكہ ماں كى بات مانو، ليكن اس كے باوجود مجھے خاوند يہى كہتا ہے كہ والدہ كے ساتھ حسب استطاعت بہتر سلوك كرتے ہوئے اچھے تعلقات ركھو.
ميرا سوال يہ ہے كہ ان حالات ميں مجھ پر كيا ذمہ دارى عائد ہوتى ہے، كہ والدہ كے ساتھ كيسے تعلقات ركھوں، اور اسى طرح اس قرض كا ذمہ دار كون ہے، حالانكہ مجھے اس يونيورسٹى ميں پڑھائى كر مجبور كيا گيا اور ميرى عمر بھى اس وقت سولہ اور اٹھارہ برس كے درميان تھى، خاوند كو اس قرض كے متعلق كچھ علم نيں، اور پھر ماں كے پاس تو قرض كى ادائيگى سے بھى زياد مال ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شريعت اسلاميہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے ماں كو بہت ہى بلند مقام عطا كيا ہے جس كا انكار نہيں كيا جا سكتا اللہ تعالى نے اولاد پر ماں كے ساتھ حسن سلوك اور اچھا برتاؤ كرنا واجب كيا ہے، اور نافرمان حرام قرار دى ہے، اور لوگوں ميں سب سے زيادہ حسن سلوك اور صلہ رحمى كا مستحق قرار ديا ہے.

جيسا كہ معروف حديث ميں وارد ہے كہ جب ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا كہ لوگوں ميں اس كے حسن سلوك كا سب سے زيادہ مستحق كون ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عرض كيا:

" تيرى ماں، تيرى ماں، تيرى ماں، پھر اس سے قريب "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2548 ).

ماں كو شريعت نے يہ حق اور مقام و مرتبہ عطا كيا ہے ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ اس مقام اور مرتبہ كى بنا پر وہ ناحق اپنى اولاد كا مال كھا جائے، بلكہ اس پر واجب اور ضرورى ہے كہ حقداروں كو ان كے حقوق كى ادائيگى كرے، اور شريعت مطہرہ كے مطابق تركہ اور وراثت ورثاء ميں تقسيم كرے.

اسى طرح ماں كے ليے يہ بھى جائز نہيں كہ وہ اپنى بيٹى كو اس كے خاوند كے متعلق خراب كرے اور خاوند و بيوى كے مابين جو حسن معاشرت پائى جاتى ہے اسے خراب كرنے كى كوشش كرتى پھرے، اس ماں نے بيٹى اور داماد كے ساتھ جو كچھ كيا ہے وہ بہت ہى برا عمل ہے شريعت مطہرہ اس سے انكار كرتى ہے، اور ايسا كام كرنے والوں كو گناہ اور سزا كى وعيد سناتى ہے.

اس صورت حال ميں آپ كے ليے اپنى ماں كے ساتھ سب سے بڑى نيكى اور حسن سلوك يہ ہے كہ آپ والدہ كو وعظ و نصيحت كريں كہ وہ خاوند اور بيوى كے مابين تعلقات خراب كرنے كى كوشش مت كرے، اور اسے غيبت اور سب و شتم اور ناحق لوگوں كا مال كھانے كى سزا اور گناہ كے متعلق بتائيں، اور اسے بڑے نرم انداز اور بہتر اسلوب سے دعوت ديں جس ميں والدہ كے ادب و احترام كو ملحوظ ركھا گيا ہو اور نيكى و حسن سلوك بھى پايا جائے.

دوم:

ماں كو يہ مقام اور مرتبہ حاصل ہے، اور والدہ كو وہ حاصل ہے، ليكن والدہ كا حق خاوند كے حق سے زيادہ نہيں، بلكہ خاوند كا حق زيادہ عظيم ہے، اور خاوند كا حق والدہ كے حق پر مقدم ہے، عقلمند بيوى كوشش كرتى ہے كہ خاوند كو ہر اس كام كے ساتھ خوش كرے جو شريعت كے مخالف نہيں، اور وہ اپنى والدہ كے ساتھ بھى ہر اس كام كو سرانجام دے كر حسن سلوك كر سكتا ہے جو خاوند كے حكم اور معاملہ كے مخالف نہ ہو، اور جب دونوں معاملے اور ارادے مختلف ہوں جائيں تو پھر خاوند كا معاملہ مقدم ہوگا.

شيخ الاسلام بن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك عورت شادى شدہ ہے اور وہ والدين كے حكم سے نكل كر خاوند كے حكم ميں آچكى ہے، اس كے ليے والدين كى اطاعت كرنا افضل ہے يا اپنے خاوند كى اطاعت كرنا ؟

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" شادى كے بعد عورت كا خاوند عورت كے والدين سے بيوى كا زيادہ مالك ہے، اور اس پر اپنے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

پس نيك عورتيں فرماں بردار ہيں، اور غير حاضرى ميں حفاظت كرنے والى ہيں، اس ليے كہ اللہ نے ( انہيں ) محفوظ ركھا .

اور حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" دنيا بہترين مال و متاع ہے، اور دنيا كا سب سے بہتر مال و متاع نيك و صالح عورت ہے، جب تم اسے ديكھو تو وہ تمہيں خوش كر دے، اور جب اسے حكم دو وہ تو تمہارى اطاعت كرے، اور جب تم اس سے غائب ( دور سفر پر ) ہو تو وہ آپ كے مال اور اپنى جان كى حفاظت كرتى ہے "

اور صحيح ابى حاتم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب عورت اپنے اوپر پانچ فرض نمازيں ادا كرتى ہو اور رمضان المبارك كے روزے ركھتى ہو، اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت كرے تو وہ جنت كے جس دروازے سے چاہے جنت ميں داخل ہو گى "

اور سنن ترمذى ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو عورت بھى اس حالت ميں فوت ہوئى كہ اس كا خاوند اس پر راضى تھا تو وہ جنت ميں داخل ہوگى "

اسے امام ترمذى نے روايت كيا اور اسے حسن قرار ديا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر ميں كسى كو كسى دوسرے كے ليے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے "

اسے ترمذى نے روايت كيا اور اسے حسن قرار ديا ہے اور ابو داود نے درج ذيل الفاظ سے روايت كيا ہے:

" تو ميں عورتوں كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوندوں كو سجدہ كريں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان پر خاوند كے بہت زيادہ حقوق ركھے ہيں "

اور مسند احمد ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" كسى بھى بشر كو كسى دوسرے بشر كے سامنے سجدہ كرنا صحيح نہيں، اور اگر كسى بشر كے سامنے سجدہ كرنا صحيح ہوتا تو ميں عورت كو حكم ديتا كہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے كيونكہ خاوند كا بيوى پر عظيم حق ہے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے اگر خاوند كے قدم سے اس كے سر تك زخم ہو اور اس سے پيپ اور خون رس رہا ہو اور بيوى اسے آگے بڑھ كر چاٹ لے تو بھى خاوند كا حق ادا نہيں كر سكتى... "

شيخ الاسلام رحمہ اللہ نے خاوند كى اطاعت كى فضيلت والى احاديث بھى نقل كى ہيں.

اس سلسلہ ميں احاديث بہت زيادہ ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

زيد بن ثابت بيان كرتے ہيں كہ: قرآن مجيد ميں خاوند كو سيد يعنى سردار كا لقب ديا گيا ہے، اور پھر انہوں نے درج ذيل فرمان بارى تعالى تلاوت كيا:

اور ان دونوں نے دروازے كے پاس اپنے سردار كو پايا .

اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:

" نكاح غلامى ہے، جو تم ميں سے ہر ايك دو ديكھنا چاہيے كہ وہ اپنى لخت جگر بيٹى كو كس كى غلامى ميں دے رہا ہے "

اور ترمذى وغيرہ ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورتوں كے ساتھ بہتر سلوك كرو، كيونكہ يہ عورتيں تمہارے پاس غلام ہيں "

چنانچہ عورت اپنے خاوند كے پاس غلام اور قيدى جيسى ہے اس ليے عورت اپنے خاوند كے گھر سے خاوند كى اجازت كے بغير باہر نہيں نكل سكتى، چاہے عورت كا والد يا والدہ يا پھر كوئى اور حكم بھى دے تو امت كا متفقہ فيصلہ ہے كہ خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے باہر نہيں نكل سكتى.

اور اگر خاوند اپنى بيوى كو كسى اور جگہ منتقل كرنا چاہے اور اپنے اوپر واجب كردہ حقوق كى ادائيگى بھى كرے اور بيوى كے متعلق اللہ كى حدود كى بھى حفاظت كرے ليكن عورت كا باپ اپنى بيٹى كو اس ميں خاوند كى اطاعت سے روكے تو عورت كو اپنے خاوند كى اطاعت كرنى چاہيے باپ كى نہيں، كيونكہ اس صورت ميں اس كے والدين اس پر ظلم كر رہے ہيں، انہيں اپنى بچى كو اس طرح كے خاوند كى اطاعت سے روكنے كا كوئى حق حاصل نہيں.

اس عورت كو بھى حق حاصل نہيں كہ وہ خاوند كى نافرمانى ميں اپنى ماں كى اطاعت كرے، كہ اس سے خلع لے يا پھر جھگڑے تا كہ خاوند اسے طلاق دے دے، يعنى بيوى كو حق حاصل نہيں كہ وہ نان و نفقہ اور لباس و مہر كے متعلق ايسا مطالبہ كرے جس كى بنا پر خاوند اسے طلاق دے دے، اگر خاوند متقى ہو اور بيوى كے معاملات ميں وہ اللہ سے ڈرنے والا ہو تو بيوى كو طلاق لينے كے متعلق اپنے والدين كى اطاعت كرنا حلال نہيں ہوگى.

سنن اربعہ اور صحيح ابن ابى حاتم ميں ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى سبب كے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے:

" خلع لينے والى ہى منافقات ہيں "

ليكن اگر اس كے والدين اسے اللہ كى اطاعت كا حكم ديتے ہيں، مثلا نماز پنجگانہ كى پابندى اور سچائى اختيار كرنے اور امانت و ديانت اختيار كرنے كے ساتھ ساتھ فضول خرچى سے اجتناب كرنے كا كہيں تو يہ ان احكام ميں شامل ہے جو اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم بھى ہے، يا پھر جس سے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے، اس ليے اسے بھى اس ميں ان كى اطاعت كرنى چاہيے چاہے اسے والدين كے علاوہ كوئى دوسرا بھى يہ باتيں كہے تو اسے يہ ماننا ہونگى تو پھر اگر والدين كہيں تو كيسے نہيں مانےگى ؟

اور جب خاوند اسے كسى ايسے كام سے روكے جس كا حكم اللہ اور اس كى رسول نے ديا ہو، يا پھر اسے كسى ايسے كام كو سرانجام دينے كا حكم دے جس سے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كيا ہو تو اسے اس ميں اپنے خاوند كى اطاعت نہيں كرنى چاہيے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ خالق الملك كى نافرمانى ميں كسى مخلوق كى اطاعت نہيں كى جا سكتى "

بلكہ اگر كوئى مالك اپنے نوكر اور غلام كو اللہ كى معصيت كا حكم دے تو غلام كو اس معصيت ميں اپنے مالك كى اطاعت كرنى جائز نہيں تو پھر عورت كو كيسے مجبور كيا جا سكتا ہے كہ وہ اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ و سلم كى مصيت ميں اپنے خاوند يا والدين كى اطاعت كرے.

كيونكہ خير و بھلائى تو صرف اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى ميں ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى و معصيت ميں ہى سارى كى سارى برائى اور شر ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 261 - 264 ).

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا مندرجہ بالا علمى اور مضبوط جواب ہى كافى ہے جس سے مقصد پورا ہو جاتا ہے، كہ آپ كى والدہ كے ليے جائز نہيں كہ وہ آپ اور آپ كى بيوى كے مابين خرابى اور فتنہ پيدا كرے، اور اس سلسلہ ميں آپ كے ليے اس كى اطاعت كرنا حلال نہيں، اور خاوند كا حق اور اس كى اطاعت آپ كى والدہ كى اطاعت سے زيادہ حق ركھتى ہے.

سوم:

بيوى كے اپنے خاوند كى اجازت كے بغير سفر كرنا جائز نہيں اور نہ ہى وہ كسى ايسے شخص كو خاوند كے گھر ميں داخل كر سكتى جسے خاوند ناپسند كرتا ہو، اور اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس ميں وہ خاوند كى اطاعت چھوڑ كر اپنى والدہ كى اطاعت نہيں كر سكتى، كيونكہ خاوند كى اطاعت كا زيادہ حق ہے.

چہارم:

ظاہر يہى ہوتا ہے كہ سوال ميں جس سودى قرض كيا بيان ہوا ہے اس كا گناہ آپ پر ہے؛ كيونكہ آپ اس وقت بالغ تھيں اور اپنے تصرفات كى ذمہ دار بھى تھيں، آپ جتنى جلدى ہو سكے اس قرض كى ادائيگى كريں تا كہ سود ميں اور اضافہ نہ ہوتا جائے، اور اس كے ساتھ ساتھ آپ سود سے سچى اور پكى توبہ كريں، كيونكہ سود كا لين دين كرنا گناہ كبيرہ ہے.

ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ آپ كى والدہ كو ہدايت نصيب فرمائے، اور آپ كے خاوند اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع ركھے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 96665 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، اس ميں شادى شدہ بيٹى كى زندگى ميں ماں كى دخل اندازى كے اسباب اور اس كا علاج بيان كيا گيا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب