الحمد للہ.
اہل علم کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے روح پھونکے جانے سے لیکر بلوغت سے پہلے فوت ہو جانے والے بچے جنت میں جائیں گے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان بچوں اور انکے والدین کیلئے انعام و اکرام اور خصوصی رحمت ہے، ویسے بھی اللہ تعالی کی رحمت سب چیزوں سے بڑی ہے، اس بارے میں اہل علم کی نصوص سوال نمبر: (6496) کے جواب میں مفصل طور پر گزر چکی ہیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کے بچوں کے بارے میں برزخی ، حشر، حساب و کتاب، قیامت کے دن ، اور پھر جنت میں داخلے کی خبریں دینے والی روایات پر غور و فکر کریں تو ہمیں ان بچوں کے اخروی سفر کی تقسیم درج ذیل مراحل میں نظر آتی ہے:
1- برزخی زندگی کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ وہ فوت ہوتے ہی جنت میں منتقل کر دیے جاتے ہیں، اور انکی روحیں جنت میں ہمارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کی نگرانی میں مکمل عیش کے ساتھ ہوتی ہیں، اس بارے میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے اکثر پوچھا کرتے تھے: (کیا کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟) تو پھر جسے اللہ تعالی توفیق دیتا وہ اپنا خواب بیان کر دیتا تھا، اور ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آج کی رات میرے پاس دو آنے والے آئے، اور انہوں نے مجھے اٹھایا، اور کہا: چلو، پھر میں انکے ہمراہ چل پڑا۔۔۔ ) آپ نے جن چیزوں کا مشاہدہ فرمایا وہ بیان فرمائیں، پھر آپ نے فرمایا: (ہم چلتے گئے، ہم ایک ہرے بھرے باغ میں پہنچے، جہاں موسم بہار کے سارے رنگ بکھرے ہوئے تھے، اور اس باغ کے عین درمیان میں قد آور آدمی تھا، جس کا سر فلک بوسی کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہا تھا، اور اس آدمی کے ارد گرد اتنے بچے تھے کہ پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھے۔۔۔) پھر آپکو اس کی فرشتوں نے جو تعبیر بیان کی اس میں یہ تھا کہ: ( باغ میں قد آور شخص ابراہیم علیہ السلام تھے، اور انکے ارد گرد موجود فطرت پر فوت ہونے والے بچے تھے) تو کچھ مسلمانوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا مشرکین کے بچے بھی؟ تو آپ نے فرمایا: (مشرکین کے بچے بھی[وہاں پر تھے])" بخاری: (7047)
اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "مؤمنوں کے بچوں کی روحیں پرندوں کے
پیٹ کے اندر جنت میں جہاں چاہتی ہیں کھاتی پیتی ہیں، اور عرش سے معلق قندیلوں میں
رہتی ہیں" انتہی
اسے ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے بیان کیا ہے، دیکھیں: "تفسير القرآن العظيم"
(7/148)
اور اسی بارے میں کچھ تفصیل ہماری ویب سائٹ کے سوال نمبر: (71175) کے جواب میں دیکھیں
2-
قیامت قائم ہونے کے بعد ساری مخلوقات کو قبروں سے اٹھایا جائے گا، چنانچہ بچوں کو
بھی اسی بچپن کی حالت میں اٹھایا جائے گا جس عمر میں فوت ہوئے تھے، تو وہ اپنے
والدین کیلئے شفاعت کرینگے اور اللہ اپنی رحمت سے انہیں جنت میں داخل کر دینگے۔
چنانچہ ابو حسان کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: "میرے دو
بیٹے فوت ہوگئے ہیں، تو اس بارے میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی
حدیث سناؤ گے ؟ جس سے فوت شدگان کے بارے میں ہمارے دل مطمئن ہو جائیں؟
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "ہاں، مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنت کے دعامیص [اسکی وضاحت آگے آئے گی ۔ مترجم] ہیں، جب ان میں سے کوئی اپنے والد کو یا والدین کو دیکھے گا تو انہیں کپڑے یا ہاتھ سے ایسے پکڑ لیں گے جیسے میں نے تمہارے کپڑے کے پلو کو پکڑ رکھا ہے، اور اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے حتی کہ اللہ تعالی اسے اور اسکے والد کو جنت میں داخل نہ کر دے" مسلم: (2635)
ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "دعامیص" اصل میں دعموص کی جمع ہے، یہ حقیقت میں
ایک کیڑے پر بولا جاتا ہے جو کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پایا جاتا ہے، اسی طرح "دعموص"
کسی بھی جگہ گھس جانے والے کو بھی کہتے ہیں، یعنی یہ بچے جنت میں بلا روک ٹوک
گھومتے پھرتے رہیں گے، گھروں میں داخل ہونگے، اور ان کیلئے کہیں پر جانا منع نہیں
ہوگا، جیسے دنیا میں بھی بچوں کو غیر محرم عورتوں کے پاس جانے سے کوئی نہیں روکتا،
اور نہ ہی کوئی ان سے پردہ کرواتا ہے" انتہی
"النهاية" (2/279)
تو اس حدیث میں بالکل واضح دلیل ہے کہ حشر، جزا ء و حساب کے وقت بچے بچپن کی حالت میں ہی ہونگے، بلکہ وقت سے پہلے اور روح پھونکے جانے کے بعد ساقط ہونے والا بچہ بھی اپنی اُسی اصلی حالت میں ہوگا، جس حالت میں اپنی ماں کے پیٹ سے ساقط ہوا تھا۔
3- اور جس وقت جنتی جنت میں پہنچ کر اپنے اپنے محلات میں براجمان ہو گے تو کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ سب کے سب جنتی چھوٹے ہوں یا بڑے تمام لوگ 33 سال کی عمر کے کڑیل جوان ہونگے، ان میں سے کوئی بھی بوڑھا نہیں ہوگا، اور ابدی و سرمدی جوان ہی رہیں گے، چنانچہ اللہ تعالی چھوٹے بچوں کی عمریں زیادہ فرما دے گا، اور بوڑھوں کی عمریں کم کر دے گا، اور سب کے سب جوانی کی بہار والی عمر کے ہو جائیں گے یعنی: 33 سال کی عمر۔
جیسے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جنتی لوگ جنت میں بغیر داڑھی مونچھ اور سرمگیں آنکھوں کیساتھ 33 سال کے کڑیل جوان
بن کر داخل ہونگے)
ترمذی: (2545) اور انہوں نے اسے "حسن غریب "کہا ہے۔ امام احمد نے اسے اپنی "مسند"
(2/315) میں ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے، اور مسند احمد کے محققین نے اسے حسن قرار دیا
ہے، ہيثمی نے اسے "مجمع الزوائد" (10/402)میں روایت کیا ہے، جبکہ أبو حاتم نے "العلل"
(3/272) میں اور البانی نے اسے "السلسلة الصحيحة" (6/1224) میں صحیح قرار دیا ہے۔
بلکہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کی روایت -لیکن اس کی سند میں کلا م ہے-میں مزید صراحت
ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ([دنیا میں رہتے ہوئے] جنتیوں میں سے کوئی
چھوٹا یا بڑا فوت ہو جائے تو سب کو جنت میں [داخلے کے وقت] 33 سال کی عمر دی جائی،
ان کی عمریں 33 سال سے زیادہ نہیں ہونگی، اور یہی حال جہنم والوں کا ہوگا)
اس کو ترمذی (2562) نے روایت کیا ہے، اور یہ کہہ کہ اسے ضعیف کہا ہے کہ اس حدیث
کو ہم رشدین بن سعد کی سند سے ہی جانتے ہیں۔ اور ابن معین نے اس کے بارے میں کہا
ہے کہ: " ليس بشيء " یعنی اسکی کوئی وقعت نہیں ہے، جبکہ نسائی نے اس کے بارے میں
کہا ہے کہ: " متروك " یعنی : اسکو ترک کر دیا گیا ہے۔
جبکہ کچھ صحابہ کرام ، اور تابعین کا یہ کہنا ہے کہ جو مسلمانوں کے بچے بالغ ہونے
سے پہلے فوت ہوں تو وہ اہل جنت کے خدّام ہونگے، وہی ان کیلئے کھانا پینا، اور دیگر
نعمتیں پیش کیا کرینگے، اور یہی بچے ان آیات میں مراد ہیں:
( يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ . بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ
مِنْ مَعِينٍ )
ترجمہ: جنتیوں پر ہمیشہ نو عمر [نظر آنے ]والے [خدام] نتھری شراب کے جام و ساغر
اور آبخوروں کے ساتھ پھرتے ہونگے۔ الواقعة/17-18
(
وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ )
ترجمہ: اور ان کی خدمت میں نو عمر لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے وہ ایسے خوبصورت ہوں
گے جیسے چھپے ہوئے موتی ہوں۔ الطور/24
(
وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ
لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا)
ترجمہ: ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ نو عمر رہیں
گے، تم انہیں دیکھو گے تو بکھرے ہوئے موتی سمجھو گے۔ الإنسان/19
اسی موقف کو علامہ ابن قیم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور حسن بصری
سے نقل کیا ہے ، لیکن انہوں نے جس موقف کو اپنایا ہے وہ یہ ہے کہ جنتیوں کی خدمت
گزاری کیلئے مامور نو عمر لڑکے جنت کی حوروں کی طرح خاص مخلو ق ہیں، اور وہ
مسلمانوں کے نا بالغ فوت شدہ بچے نہیں ہونگے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ: "مسلمانوں
کے بچے بھی قیامت کے دن 33 سال کی عمر کے کڑیل جوان ہونگے" انتہی
دیکھیں: "حادی الأرواح إلى بلاد الأفراح" (ص/309-311)
اور ان دونوں اقوال میں سے قوی قول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سابقہ روایت کی وجہ سے دوسرا ہی زیادہ قوی لگتا ہے کیونکہ اس میں ہے کہ : " مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنت کے دعامیص ہیں" [دعامیص کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ مترجم] یہ روایت پہلے قول کی دلیل کے مقابلے میں صحیح اور واضح ترین ہے۔
مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی وہ بچے جنت میں گھومتے پھریں گے، گھروں میں آئے جائیں گے، بالکل اسی طرح جیسے
دنیا میں بچوں کو گھروں میں گھسنے سے نہیں روکا جاتا۔
اور "دعامیص" کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ : اصل میں "دعموص" شاہی خدام کو بھی
کہا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ آتے جاتے ہیں، اور وہ اجازت لینے کی ضرورت بھی محسوس
نہیں کرتے، اور جہاں چاہیں چلے جاتے ہیں؛ اور جنت کے بچوں کو انہیں خدام سے تشبیہ
دی گئی ہے کہ وہ بھی جہاں چاہیں گے آتے جاتے رہیں گے، انہیں کوئی نہیں روکے گا"
انتہی
فيض القدير (4/194) ،اور اسی سے ملتی جلتی گفتگو مرقاة المفاتيح از ملا علی
القاری (6/14) میں بھی ہے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (20469) کے جواب میں بھی ہے۔
واللہ اعلم.