الحمد للہ.
پہلی بات:
میت کو دفنانے کے بعد سب سے پہلے قبرسمٹتی ہے اور میت کو بھینچتی ہے، اور اس متعلق عام نصوص ہیں جن سے معلوم ہوتا ہےکہ جس کسی کو بھی قبر میں اتارا جاتا ہے سب کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ اللہ سب کا حامی ومددگار ہو۔
امام احمد رحمہ اللہ نے مسند (6/55، 98) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: (بلا شبہ قبر [مردے کو] دباتی ہے، اگر کوئی اس سے محفوظ ہوتا تو سعد بن معاذ ہوتے ) علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ (1695) میں فرماتے ہیں : "من جملہ یہ حدیث اپنے تمام شواہد اور اسانید کی وجہ سے بلا شک و شبہ صحیح ہے، اللہ تعالی ہمارے لئے اس فتنہ قبر کو آسان بنائے، بے شک وہی دعائیں قبول کرنے والا ہے"
اور ابو ایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ایک بچے کو دفن کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر قبر کے دباؤ سے کوئی محفوظ ہوتا تو یہ بچہ ہوتا)طبرانی نے اسے معجم الکبیر (4/121) میں اور ہیثمی نے (3/47) میں صحیح کہا ہے، اور البانی نے سلسلہ صحیحہ (2164) میں صحیح کہا ہے۔
دوسری بات:
علمائے کرام کا قبر میں بچوں سے سوالات کئے جانے کے متعلق اختلاف ہے، اس بارے میں انکی دو راۓہیں:
پہلی راۓ:
بچوں سے بھی قبر میں سوالات ہونگے، یہی موقف کچھ مالکی اور چند حنبلی علماء کا ہے، اسی کو قرطبی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، جیسا کہ "فروع" میں ان سے ایسے ہی منقول ہے۔
دیکھیں: "الفروع" (2/216) ، "شرح زرقانی" (2/85)
ابن قیم رحمہ اللہ "الروح" (87-88) میں کہتے ہیں:
"بچوں سے سوالات ہونے کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ: انکی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، دعا کی جاتی ہے، اور یہ بھی دعا مانگی جاتی ہے کہ اللہ انہیں قبر کے عذاب، اور سوالات سے محفوظ فرمائے۔
جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک بچے کا جنازہ پڑھایا اوریہ دعا کی : "یا اللہ! اسے عذاب قبر سے محفوظ فرما" اسے مالک: (536) اور ابن ابی شیبہ : (6/105) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح علی بن معبد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتےہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے ایک بچے کا جنازہ گزرا تو آپ رو دیں، آپ سے عرض کیا گیا: ام المومنین! آپ کیوں رو رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: فوت ہونے والا ابھی بچہ ہے، تو مجھے اس پر ترس آیا کہ اسے بھی قبر دبائے گی"
ان علمائے کرام کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالی انہیں [قبر میں]کامل عقل عطا فرمائے گا، جس سے وہ اپنا ٹھکانہ پہچان لیں گے، اور انہیں کئے جانے والے سوالات کے جوابات الہام کر دیے جائیں گے" انتہی
دوسری راۓ:
بچوں سے قبر میں امتحان یا سوالات نہیں ہونگے، یہ موقف شافعی، کچھ مالکی اور حنبلی علماء کا ہے۔
ابن مفلح "الفروع" (2/216) میں لکھتے ہیں کہ:
"یہی قول قاضی اور ابن عقیل کا ہے" ا نتہی
اس قول کی دلیل کیلئے ابن قیم رحمہ اللہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، اور اس وضاحت سے ان کا میلان بھی اسی جانب نظر آتا ہے، چنانچہ "الروح" (87-88) میں رقم طراز ہیں کہ:
"سوالات اسی سے ہو سکتے ہیں جو رسول اور اس کو بھیجنے والے [اللہ تعالی] کو پہچانتا ہو ۔ اسی سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ رسول پر ایمان لایا تھا؟ اور اسکی اطاعت کی تھی یا نہیں؟ چنانچہ اس سے کہا جائے گا: "تمہاری طرف مبعوث کیے جانے والے کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟"
لیکن جس بچے کو کسی اعتبار سے بھی شعورنہیں ہے؛ اسے کیسے یہ کہا جاسکتا ہے: " تمہاری طرف مبعوث کیے جانے والے کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟" خواہ قبر میں اسے کامل عقل دے بھی دی جائے، تو بھی ایسی چیز کے بارے میں بالکل سوال نہیں کیا جا سکتا جس کے بارے میں اُسے علم ہی نہیں ہے، اور اسے اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ بچے کو ترکِ اطاعت، یا نافرمانی والی سزا دی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالی کسی کو بھی بغیر گناہ کے عذاب نہیں دیتا۔
بلکہ عذاب قبر سے مراد اس سزا کے علاوہ وہ تکلیف ہے جو میت کو دیگر لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے،جیسے عذاب قبر کی یہی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں مراد ہے:(بے شک میت پر اسکے اہل خانہ کی طرف سے رونے پر عذاب دیا جاتا ہے) یعنی: میت ان کے رونے کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زندہ افراد کے گناہ کی وجہ سے اسے سزا دی جاتی ہے۔
اور اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ قبر میں ملنے والی تکالیف، دکھ، حسرتیں اتنی شدید ہوسکتی ہیں کہ بچہ بھی ان کی وجہ سے تکلیف محسوس کرے، چنانچہ بچے کا جنازہ پڑھنے والا اللہ تعالی سے یہ دعا کر سکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے اِس عذاب سے بھی محفوظ رکھے، واللہ اعلم" انتہی
تیسری بات:
فوت شدہ بچوں کی جگہ کے بارے میں کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ساتویں آسمان پر ہونگے یا اپنی قبروں میں؟
تو اس بارے میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے اکثر پوچھا کرتے تھے: (کیا کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟) جسے توفیق ملتی وہ اپنا خواب بیان کر دیتا ، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے، انہوں نے مجھے اٹھایا، اور کہا: چلو، پھر میں انکے ہمراہ چل پڑا۔۔۔ ) آپ نے جن چیزوں کا مشاہدہ فرمایا وہ بیان فرمائیں، پھر آپ نے فرمایا: (ہم چلتے گئے، ہم ایک ہرے بھرے باغ میں پہنچے، جہاں موسم بہار کے سارے رنگ بکھرے ہوئے تھے، اور اس باغ کے عین درمیان میں قد آور آدمی تھا، جس کا سر فلک بوسی کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہا تھا، اور اس آدمی کے ارد گرد اتنے بچے تھے کہ پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھے۔۔۔) پھر آپ نے فرشتوں نے بیان کردہ تعبیر بتائی کہ: ( باغ میں قد آور شخص ابراہیم علیہ السلام تھے، اور انکے ارد گرد موجود فطرت پر فوت ہونے والے بچے تھے) تو کچھ مسلمانوں نے کہا: اللہ کے رسول! اور مشرکین کے بچے بھی؟ تو آپ نے فرمایا: (مشرکین کے بچے بھی)" بخاری: (7047)
یہ حدیث ا س بات کی دلیل ہے کہ جو بچے بلوغت سے پہلے فوت ہو جائیں وہ جنت میں ابراہیم علیہ السلام کی کفالت میں ہونگے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بھی ساتویں آسمان پر ہونگے۔
مزید کیلئے دیکھیے: "شرح مسلم "از نووی: حديث نمبر: (2658)
چوتھی بات:
بچوں کی طرف سے والدین کے حق میں شفاعت کرنے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث موجود ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
ابو حسان کہتے ہیں : میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: "میرے دو بیٹے فوت ہوگئے ہیں، آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث سنائیے ، جس سے ان کے بارے میں ہمارے دل مطمئن ہو جائیں؟
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنت کے دعامیص [دعامیص اصل میں ٹھہرے ہوئے پانی میں رہنے والے کیڑوں کو کہتے ہیں، جو کبھی بھی پانی سے باہر نہیں نکلتے، اسی مناسبت سے ان بچوں کو انہی کیڑوں کا نام دیا ہے کہ وہ بھی ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ مترجم]ہیں، جب ان میں سے کوئی اپنے والد کو یا والدین کو دیکھے گا تو انہیں کپڑے یا ہاتھ سے ایسے پکڑ لیں گے جیسے میں نے تمہارے کپڑے کے پلو کو پکڑ رکھا ہے، اور اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے حتی کہ اللہ تعالی اسے اور اسکے والدین کو جنت میں داخل نہ کر دے" مسلم: (2635)
واللہ اعلم.