جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خطبہ کے دوران خطیب دعا کروائے اور لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا کریں۔

118023

تاریخ اشاعت : 24-11-2015

مشاہدات : 13589

سوال

سوال: میں دورانِ خطبہِ جمعہ خطیب کی طرف سے دعا اور لوگوں کے اس دعا پر آمین کہنے سے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں، اسی طرح اس بارے میں بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ خطیب یہ کہے کہ: اللہ سے دعا پورے یقین کے ساتھ مانگو، پھر لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خطبہ کے دوران خطیب کیلئے دعا مانگنا  مستحب ہے، اور سامعین دعا پر آمین کہیں گے، لیکن دعا کیلئے خطیب اور سامعین ہاتھ نہیں اٹھائیں گے؛ کیونکہ دوران خطبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور آپ کے صحابہ کرام سے  ایسا عمل ثابت نہیں ہے۔

مسلم: (874) میں ہے کہ عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ  نے بشر بن مروان  کو منبر  پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے دیکھا، تو کہا: "اللہ تعالی ان دونوں ہاتھوں کو قبیح  کر دے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے آپ اس سے زیادہ [دعا کیلئے ] کچھ نہیں کرتے تھے، پھر انہوں نے اپنی شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا"

نووی رحمہ اللہ "شرح مسلم" میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں  اس سنت کا بیان ہے کہ خطبہ میں دعا کرتے ہوئے ہاتھ مت اٹھائے جائیں، یہی موقف مالک اور ہمارے [شافعی] فقہاء سمیت دیگر اہل علم کا ہے، قاضی نے بعض  سلف  اور کچھ مالکی فقہاء سے دعا کیلئے دورانِ خطبہ ہاتھ اٹھانے کی اجازت نقل کی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  بارش کیلئے دعا مانگتے ہوئے  ہاتھ اٹھائے تھے، پہلے موقف والوں نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ بارش کیلئے ہاتھ اٹھانا  عارضی سبب کی وجہ سے تھا" انتہی

چنانچہ اگر خطیب  دورانِ خطبہ  بارش کی دعا کرے تو  اس کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا مسنون ہے، اسی طرح مقتدی بھی  بارش کی دعا پر ہاتھ اٹھائیں گے؛ اس کی دلیل بخاری: (933) اور مسلم: (897) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قحط سالی کا سامنا  کرنا پڑا، انہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، تو ایک دیہاتی شخص  کھڑا ہوا اور کہا: "اللہ کے رسول! مال [جانور] ہلاک ہو رہے ہیں، بچے بھوکے بلک رہے ہیں، آپ اللہ سے دعا  فرما دیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر  دعا فرمائی، اس وقت آسمان پر کوئی بدلی بھی نظر نہیں آرہی تھی، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نیچے کرنے سے پہلے  پہاڑوں کی طرح بادل امنڈ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر سے اترنے  سے پہلے ہی  آپکی داڑھی سے پانی کے قطرے گرنے لگے"

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"خطیب دوسرے خطبہ  میں دعا کروائے ، اور کوئی  انکی دعا پر ہاتھ اٹھائے تو اس کا کیا حکم ہے، دلیل کی روشنی میں بیان کریں، اللہ آپکو اس کا اجر عطا فرمائے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"خطبہ جمعہ، یا خطبہ عید کے دوران  ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا  خطیب اور سامعین کسی کیلئے جائز نہیں ہے، شرعی عمل یہ ہے کہ سامعین خطیب کی بات خاموشی سے سنیں، اور ان کی دعا پر دل ہی دل میں آمین کہیں، آواز بلند نہ کریں، لیکن اس دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ میں  یا خطبہ عید میں ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کیا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ایک صحابی نے  کسی گورنر کو  خطبہ جمعہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے دیکھا تو ان کے اس عمل کو برا سمجھا، اور کہا کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا میں ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے"
البتہ اگر خطبہ جمعہ کے دوران بارش کیلئے دعا مانگنی ہو تو بارش کی دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ سکتا ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بارش کی دعا کیلئے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے، چنانچہ خطبہ جمعہ، یا خطبہ عید  میں بارش کی دعا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانا شرعی عمل ہے" انتہی
" مجموع فتاوی شیخ ابن باز " (12/339)

دوم:

خطیب  خطبہ کے درمیان یا آخر میں دعا کر ے، کیونکہ خطبہ کا دورانیہ ان لمحات میں سے  ہے جن میں قبولیت دعا کا امکان ہوتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن ایک قبولیت کی گھڑی  ہوتی ہے، اس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان شخص  اللہ تعالی سے خیر مانگے تو اللہ اسے وہ عطا فرمادیتا ہے، جیسے کہ صحیح بخاری: (5295) صحیح مسلم: (852) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں کوئی بھی مسلمان کھڑے ہوکر نماز کی حالت میں اللہ تعالی سے خیر مانگے تو اللہ تعالی اسے وہ خیر عنایت فرماتا ہے ) اور اس گھڑی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "ان تمام اقوال میں سے صحیح دو اقوال ہیں، جو کہ ثابت شدہ احادیث کے ضمن میں آئے ہیں، ان دونوں میں سے بھی ایک صحیح ترین قول ہے:

پہلا قول:
یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے، اس قول کی دلیل صحیح مسلم (853) کی روایت ہے، جسے ابو بردہ بن ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، آپ [ابو بردہ]کہتے ہیں کہ مجھے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا تم نے اپنے والد [ابو موسی اشعری] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے بارے میں روایت کرتے ہوئے سنا ہے؟ میں [ابو بردہ] نے کہا: جی ہاں؛ میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے کہتے ہوئے سنا: (یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز کے مکمل ہونے تک ہے)

ترمذی: (490) اور ابن ماجہ : (1138) میں عمرو بن عوف المزنی کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں کوئی بھی بندہ اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے ، تو اللہ تعالی اسے وہی عنایت فرماتا ہے!!) صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کونسی گھڑی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نماز کھڑی ہونے سے لیکر نماز ختم ہونے تک)

دوسرا قول یہ ہے کہ :
یہ گھڑی عصر کے بعد ہے، اور یہ قول پہلے سے زیادہ راجح ہے، اسی کے عبد اللہ بن سلام ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ، امام احمد قائل ہیں۔

اس قول کی دلیل امام احمد کی مسند میں روایت کردہ حدیث (7631) ہے، جسے ابو سعید خدری، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان بندہ اللہ تعالی سے کوئی بھی خیر کی چیز مانگے تو اللہ اسے وہی عنایت فرماتا ہے، اور یہ گھڑی عصر کے بعد ہے)

اسی طرح ابو داود: (1048) اور نسائی: (1389) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جمعہ کا دن بارہ پہر[گھڑیوں ]پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک لمحہ ایسا ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے تو اللہ تعالی اُسے وہی عطا فرما دیتا ہے، تم اسے جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری لمحہ میں تلاش کرو ) ۔۔۔" انتہی
"زاد المعاد" (1/376)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب