جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

غير شادى شدہ عورت كے دودھ سے حرمت اور لاوارث بچے كى تربيت اور " العرق دسّاس " كا معنى

118709

تاریخ اشاعت : 14-06-2009

مشاہدات : 12353

سوال

ميں اور ميرا خاوند ايك يتيم بچے كى تربيت و كفالت كرنے كا سوچ رہے ہيں، خاص كر اس ليے كہ اللہ تعالى نے ہميں بچے كى نعمت عطا نہيں كى، اس سلسلہ ميں ميرے دو سوال ہيں:
پہلا سوال:
دودھ لانے كے ليے گولياں استعمال كرنے كا حكم كيا ہے؛ تا كہ بچے كو پلايا جا سكے اور وہ ہمارا رضاعى بيٹا بن جائے ( يہ علم ميں رہے كہ ميں نے اس طرح كى گوليوں كے متعلق سنا ہے اور اس كى تحقيق بھى كرنے كى كوشش ميں ہوں كہ اس طرح كى گولياں ہيں يا نہيں، ليكن پہلے ميں اس كا شرعى حكم معلوم كرنا چاہتى ہوں ) ؟
اور كيا اس طرح بچہ ہمارا رضاعى بيٹا بن جائيگا، يہ علم ميں رہے كہ دودھ حمل كے نتيجہ ميں نہيں آئيگا ؟
دوسرا سوال:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:
" دسّاس العرق " كا معنى كيا ہے ؟
ميں آپ سے اس يتيم بچے كى تربيت كے متعلق بھى مشورہ كرنا چاہتى ہوں جسے ہم اپنى كفالت ميں لينا چاہتے ہيں، اور خاص كر يہاں سعودى عرب ميں اكثر يتيم خانوں ميں جو بچے ہيں وہ لاوارث ہيں اور انہيں لوگ پھينك ديتے ہيں، ميرا يہ يقين ہے كہ بچے كا تو كوئى گناہ نہيں، ليكن ميں بچے كے مستقبل كے متعلق سوچتى ہوں كہ جب وہ بڑا ہو گا اور اسے ہم جب يہ بتائيں گے كہ وہ ايك لاوارث بچہ تھا اور اسے اس كى ماں جن كر پھينك گئى تھى تو اس كا شعور اور احساس كيا ہو گا، اور لوگوں كا اس بچے كے ساتھ كيا سلوك ہو گا اور شادى جيسے معاملات كس طرح حل ہونگے، ميں جانتى ہوں كہ ان شاء اللہ كوئى مشكل پيش نہيں آئے گى، كيونكہ ہم اس كے ساتھ بہتر معاملہ كرينگے جس سے ہمارا رب راضى ہو، ليكن مجھے بچے كے مستقبل كى فكر ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ اور آپ كے خاوند كو نيك و صالح اولاد كى نعمت سے نوازے، اور شرعى احكام پر عمل كرنے پر اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، اور يتيم كى كفالت اور ان كا خيال ركھنے كى محبت پر بہتر بدلہ دے.

اور ہم اس جواب كو پڑھنے والے كے بھى دعا گو ہيں كہ وہ بھى آپ دونوں كے ليے خصوصى دعا كرے، اميد ہے اللہ تعالى تمہيں دنيا و آخرت ميں اس سے فائدہ عطا فرمائيگا.

دوم:

خاص كر دودھ لانے والى گوليوں كے متعلق گزارش ہے كہ آپ ان گوليوں كى موجودگى كے يقين كے ساتھ ساتھ دودھ ميں اثرانداز نہ ہونے كا بھى يقين كريں كہ يہ گولياں دودھ پر تو اثرانداز نہيں ہوتيں، تا كہ اس كا ان دودھ پينے والے يتيم بچوں پر كوئى برا اثر نہ پڑے.

اور اس كے شرعى حكم كے متعلق عرض يہ ہے:

غير شادى شدہ عورت يا جماع اور حمل كے بغير آنے والے دودھ كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء كہتے ہيں كہ اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى، اور كچھ علماء كہتے ہيں كہ دودھ كا موجود ہونا معتبر ہے نہ كہ خاوند كا موجود ہونا، اس طرح ان كا كہنا ہے كہ اس سے حرمت ثابت ہو جاتى ہے، اور راجح بھى يہى ہے اور جمہور علماء كا قول يہى ہے اور تقريبا آئمہ اربعہ كا بھى اس پر اتفاق ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر فرض كريں كہ يہ دودھ اس عورت كو آئے جس نے كبھى شادى كى ہى نہيں، تو ابو حنيفہ اور مالك اور شافعى اور احمد كى ايك روايت ميں اس سے حرمث ثابت ہو جائيگى ليكن احمد كا ظاہر مذہب يہ ہے كہ اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 51 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر عورت كو وطئ اور جماع كے بغير ہى دودھ آجائے اور وہ كسى بچے كو پلائے تو دو روايتوں ميں ظاہر روايت سے حرمت ثابت ہو جائيگى، ابن حامد كا يہى قول اور امام مالك ثورى ابو ثور شافعى اور اصحاب رائے اور ابن منذر كے سب اساتذہ كا يہى مسلك ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تمہارى وہ مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا .

اور اس ليے بھى كہ دودھ عورت كا ہے تو اس طرح حرمت كا تعلق بھى اسى سے ہو گا، جس طرح كہ اگر وہ دودھ وطئ اور جماع كى بنا پر آئے، اور اس ليے بھى كہ عورتوں كو دودھ بچوں كى خوراك كے ليے بنايا گيا ہے، چاہے يہ نادر ہے تو اس كى جنس معتاد ہے.

اور دوسرى روايت يہ ہے كہ: اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى كيونكہ يہ نادر ہے، اس بچوں كا خوراك حاصل كرنا عادت نہيں تو يہ مردوں كے دودھ كے مشابہ ہوا، ليكن پہلى روايت زيادہ صحيح ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 207 ).

اور شافعى علماء ميں الماوردى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورتوں كا دودھ بچوں كى خوراك كے ليے بنايا گيا ہے، اور اس ميں مرد كا جماع شرط نہيں، اگرچہ غالب طور پر دودھ آنے كا سبب جماع ہے، تو يہ كنوارى كى طرح ہى ہوا كہ جب اسے دودھ آ جائے اور وہ بچے كو پلائے تو اس سے رضاعت كى حرمث ثابت ہو جائيگى، چاہے وہ جماع كے بغير ہى آيا ہو " انتہى

ديكھيں: الحاوى فى فقہ الشافعى ( 11 / 413 ).

اس سلسلہ ميں دو اہم امور پر تنبيہ كرنا ضرورى ہے:

اول:

بچے كى عمر دو برس سے كم ہو، اگر اس كى عمر دو برس سے زيادہ ہو تو پھر عورت كا دودھ پينے سے حرمت ثابت نہيں ہو گى.

دوم:

وہ بچہ سير ہو كر پانچ رضعات دودھ پئے اگر اس سے كم پئے تو وہ دودھ پلانے والى كا رضاعى بيٹا نہيں بنے گا.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" قرآن مجيد ميں دس معلوم رضعات نازل ہوئى تھيں، پھر انہيں پانچ معلوم رضاعت كے ساتھ منسوخ كر ديا گيا اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو يہ قرآن مجيد ميں پڑھى جانے والى ميں شامل تھيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1452 ).

ان دونوں كے دلائل اور كچھ اہم تفاصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 804 ) اور ( 40226 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

سوم:

رہا لفظ " العرق دسّاس " تو يہ كچھ روايات ميں وارد ہے ليكن وہ يا تو بہت زيادہ ضعيف يا پھر موضوع اور من گھڑت ہيں جن ميں درج ذيل روايات ہيں:

1 ـ " قرض سے كم يہ ہے كہ تم آزاد زندگى بسر كرو، اور گناہ سے تمہارے ليے موت آسان ہے، اور ديكھو كہ تمہارا بيٹا كہا پيدا ہوتا ہے كيونكہ باپ كى عادتيں بيٹے كو ہوتى ہيں "

يہ حديث بہت زيادہ ضعيف ہے ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الضعيفہ حديث نمبر ( 2023 ).

2 ـ " نيك و صالح گود ميں شادى كرو كيونكہ باپ كى عادتيں اولاد ميں ہوتى ہيں "

يہ حديث موضوع اور من گھڑت ہے، ديكھيں السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 3401 ).

رہا حديث كا معنى اور مراد بھى باطل ہے، وہ يہ كہ اگر بيوى كے اصل يعنى ماں باپ ميں خرابى ہو تو يہ خرابى اولاد ميں بھى پيدا ہو سكتى ہے! مطلقا ايسا نہيں ہوتا اور پھر حديث اصل ميں صحيح ہى نہيں تو اس كا معنى كيسے صحيح ہو گا.

چہارم:

يتيموں كى پرورش كرنا اور ان كا سہارا بننا سب سے عظيم كاموں ميں شامل ہوتا ہے، اور پھر ہميں معلوم ہے كہ لاوارث بچے كو كس قدر اس كى ضرورت ہے كہ وہ بڑا ہو كر معاشرے كا ايك فرد بن سكے، اور اپنى حالت كى بنا پر اس پر سلبى اثر نہ ہو.

ليكن يہ ضرورت كى حد تك ہے اس سے جائز نہيں ہو جاتا كہ اس لاوارث بچے كو كسى معين شخص كى طرف منسوب كر كے اس كے خاندان ميں شامل كر ديا جائے اور وہ اس كى ولديت سے معروف ہو جائے؛ كيونكہ ايسا كرنا نسب ناموں ميں اختلاط كا باعث ہو گا، اور اللہ كى حرام كردہ كو حلال اور حرام كردہ چيز كو مباح كرنا كہلائيگا.

ليكن يہ ممكن ہے كہ گورنمنٹ اسے عام نام دے جو كسى معين شخص كى طرف نہ پلٹتا ہو، اور آپ كے پاس پرورش پائے اور آپ كا رضاعى بيٹا كہلائے، اور يہ بھى ممكن ہے كہ آپ اس كو توريہ كرتے ہوئے يہ بتائيں كہ اس كے والدين كو حادثہ پيش آ گيا تھا اور وہ اكيلا بچ گيا، يا اس طرح كى كوئى اور بات اور سبب بيان كر ديا جائے جو علاقے اور ماحول كے اعتبار سے مختلف ہو گا.

اس مسئلہ كى تفصيل آپ كو درج ذيل سوالات كے جوابات ميں مل سكتى ہے آپ ان كا مطالعہ كريں:

( 100147 ) اور ( 10010 ) اور ( 4696 ) اور ( 5201 ) اور ( 95216 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب