سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

تحائف اور گڑیا کی خرید و فروخت کا حکم

119056

تاریخ اشاعت : 21-09-2020

مشاہدات : 21213

سوال

سوال: کیا تحائف اور گڑیا وغیرہ کی خرید و فروخت کا کام کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ایسے سامان کی خرید و فروخت جائز ہے جسے لوگ تحائف دینے کیلیے استعمال کرتے ہیں، مثلاً:  کھلونے، پھول اور کارڈ وغیرہ، بشرطیکہ موسیقی، مجسمے اور ذی روح کی تصاویر جیسی کسی حرام چیز پر مشتمل نہ ہوں ، یا کسی حرام کام کیلیے معاون ثابت نہ ہوں، جیسے کہ ویلنٹائن ڈے، کرسمس، اور ہالوین وغیرہ کے تحائف؛ کیونکہ ایک تو کسی حرام چیز کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اور دوسرا حرام کام پر معاونت کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
  وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ  
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں پر تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں پر تعاون مت کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو بے شک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدة:2]

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (99388)  اور (49676) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

گڑیا اور جانوروں کے پتلے نما کھلونے اگر بچوں کیلیے ہوں تو ان کی تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ گڑیا سے کھیلنے  کی اجازت موجود ہے، اور ویسے بھی بچوں کو ایسی کئی چیزوں میں رخصت  ہے جن کی بڑوں کو نہیں  ہے۔

البتہ جن مجسموں کو بڑے افراد اپنی بیٹھک اور گاڑی وغیرہ میں سجانے کیلیے خریدیں تو  انہیں فروخت کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ صحیح بخاری اور مسلم میں  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی گڑیاؤں سے کھیلتی تھی اور میری کچھ سہیلیاں بھی  میرے ساتھ  کھیلتی تھیں۔۔۔ الحدیث) بخاری: (6130) مسلم: (2440)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں:
"اس حدیث سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ بچیوں کے کھیلنے کیلیے گڑیا اور کھلونوں کی تصویر اور شکل بنانا جائز ہے، اسے تصاویر کی عام ممانعت سے خاص کیا گیا ہے، قاضی عیاض نے یہ بات ٹھوس الفاظ میں کہی ہے اور اس موقف کو جمہور سے نقل کیا ہے، اور انہوں نے بچیوں کے کھیلنے کیلیے گڑیا فروخت کرنا جائز قرار دیا ہے تا کہ بچیوں کی بچپن سے ہی امورِ خانہ داری اور اولاد کی دیکھ بھال کرنے کی تربیت ہو، ابن حبان رحمہ اللہ نے اس  حدیث کیلیے عنوان قائم کیا ہے: "چھوٹی بچیوں کیلیے کھلونوں سے کھیلنے کا جواز۔۔۔" اور ابن جریر کی ہشام سے روایت کردہ روایت  میں الفاظ یوں ہیں[جس کا اردو مفہوم یہ ہے]: "میں بچیوں کی شکل کے بنے ہوئے کھلونوں  سے کھیلتی تھی" اسے ابو عوانہ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح ابو داود اور نسائی میں ایک اور سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس آئے۔۔۔" پھر راوی نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر لٹکا ہوا پردہ  ہٹایا جو سیدہ عائشہ نے لگایا تھا، اس میں مزید یہ ہے کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ کی گڑیوں سے پردہ ہٹایا تو پوچھا: (عائشہ یہ کیا ہیں؟) تو عائشہ نے کہا: "میری گڑیاں ہیں" عائشہ کہتی ہیں کہ: آپ کو وہاں پر بندھا ہوا گھوڑا بھی نظر آیا اس کے دو پر تھے، تو آپ نے فرمایا: (یہ کیا ہے؟) میں نے کہا: "یہ گھوڑا ہے" آپ نے فرمایا: (کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟) میں نے کہا: "کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے  کے پر تھے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے""  انتہی مختصراً

ابن حجر رحمہ اللہ نے جس روایت کو ذکر کیا ہے وہ ابو داود: (4932) میں موجود ہے، اسے البانی نے غایۃ المرام (129)میں صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"گڑیا اور کتابوں میں موجود چیزوں کے مجسمے خریدنے کا کیا حکم ہے مثلاً: حیوانات، پرندوں  وغیرہ کی تصاویر، انہیں خریدنے کی وجہ یہ ہے کہ بچے انہیں دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور جلدی سیکھ جاتے ہیں، اب مجھے نہیں معلوم کہ اس کا کیا حکم ہے؟"
تو اس پر انہوں نے جواب دیا:
"بچیوں کی گڑیا جو  عورت، بچی یا بچے کی شکل کا مجسمہ ہوتی ہے  اس کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ، جیسے کہ آج کل بغیر آنکھ، ناک، منہ اور چہرے کے خد و خال کے بغیر بن رہی ہیں تو اس کے جائز ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جن گڑیوں سے کھیلتیں تھیں وہ بھی اسی قسم کی تھیں۔

دوسری قسم: پلاسٹک سے بنی ہوئی گڑیاں جو بالکل ہو بہو انسان کی طرح ہوتی ہیں، یہاں تک کہ اس کی آنکھیں، ہونٹ، پلکوں کے بال اور بھنویں سب کچھ  انسانوں جیسا ہوتا ہے، بلکہ بعض تو چلتی بھی ہیں اور آوازیں بھی نکالتی ہیں، تو اس کے جائز ہونے میں تامل ہے، تاہم میں اس  کے متعلق سختی نہیں اپناتا؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ وہ گڑیوں سے کھیلتی تھیں، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے بچیوں کیلیے گڑیوں سے کھیلنے کی قدرے وسعت کشید ہوتی ہے، خصوصاً ایسی صورت حال میں جیسے کہ آپ نے بھی ذکر کیا ہے کہ بچے خوش ہوتے ہیں، تاہم اس کے مثبت پہلو کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ :  ایسی گڑیا کا متبادل جب تک موجود ہو  تو ایسی گڑیا لینے سے بچنا چاہیے جس کے جائز ہونے میں یقین بھی نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (یقینی چیز اپنا کر غیر یقینی چیز کو چھوڑ دو)

البتہ دیگر جانوروں کی شکلوں کے کھلونے مثلاً: گھوڑا، شیر اور دیگر اسی طرح کے جانور تو انہیں لینے کی مطلقاً کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی؛ ایسے کھلونوں کی بجائے آلات کار، بلڈوزر وغیرہ  لے لیے جائیں؛ کیونکہ بچہ جس طرح جانداروں کی شبیہ دیکھ کر  بہل جاتا ہے اسی طرح ایسے کھلونوں سے بھی بہل جائے گا، اور اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ کوئی گنجائش باقی نہ ہو مثلاً: کوئی ایسی گڑیا گفٹ میں دے تو اس کا سر کاٹ دے اور اسے اپنے پاس بغیر سر کے رکھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" (26/6)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب