الحمد للہ.
اول:
مسلمان کسی کافر یا فاسق کیساتھ مل کر تجارت کرے یا کاروبار کرے تو یہ جائز ہے، جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہود کو کھیتی باڑی کیلئے دی، اور اس پر انہیں پیداوار کا نصف حصہ بھی دیا۔ بخاری: (2366)
یہ زرعی شراکت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان ہوئی تھی کہ یہود زمینپر کھیتی باڑی کرینگے چنانچہ کام یہود کا اور زمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تھی اور حاصل ہونے والی پیداوار دونوں میں برابر تقسیم ہوگی۔
اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے "کتاب الشرکہ" میں اس طرح عنوان قائم کیا ہے:
"باب ہے ذمی اور مشرکین کیساتھ زرعی شراکت کے بیان میں"
دوم:
کسی مسلمان کی کافر کیساتھ کاروباری شراکت اس وقت منع ہے جبشراکت کا نتیجہ کفار سے محبت اور دلی تعلق کا باعث بنے۔
اسی طرح یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر تجارت میں شراکت ہو تو کاروباری معاملات مسلمان خود سے نمٹائے، یا کم از کم کافر یا فاسق کے تجارتی معاملات پر کڑی نظر رکھے کہ کہیں سودی لین دین اور حرام امور میں ملوّث نہ ہو۔
شیخ صالح فوزان " الملخص الفقہی " ( 2 / 124 ) میں کہتے ہیں:
"مسلمان کسی کافر کیساتھ تجارتی شراکت قائم اس شرط پر کر سکتا ہے کہ تجارتی لین دین صرف کافر کے ہاتھ میں نہ ہوں، بلکہ مسلمان ان پر کڑی نگرانی کرے؛ تا کہ کافرشخص سودی لین دین یا حرامامور میں ملوّث نہ ہو" انتہی
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا کوئی مسلمان کسی عیسائی کیساتھ کاروباری شراکت قائم کر سکتا ہے، مثلاً مل کر بکریاں پالیں، یا بکریوں کی تجارت کریں، یا کوئی اور کاروبار کریں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
" مسلمان کسی عیسائی کیساتھ یا کسی کافر کیساتھ تجارتی شراکت داری قائم کرے تواصل کے اعتبار سے یہ جائز ہے، بشرطیکہ کافر کیساتھ دلی لگاؤ نہ ہو، بلکہ زراعت، پالتو جانور وغیرہ کے کاروبار میں تعاون ہو ۔
کچھ اہل علم نے یہ بھی شرط لگائی ہے کہ : یہ کام مسلمان ہی کرے، یعنی زراعت اور پالتو مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام مسلمان کرے، کافر نہ کرے، کیونکہ اسے امانت دار نہیں سمجھا جا سکتا۔
تاہم اس بارے میں قدرے تفصیل ہے:
کہ اگر تجارتی شراکت داری کی بنا پر کافر کیساتھ دلی تعلق اور لگاؤقائم ہونے لگے یا حرام کا ارتکاب کرنے کا باعث بنے یا اللہ کی طرف سے واجب امور ترک کرنے کا سبب بنے تو پھر ایسی شراکت داری حرام ہوگی؛ کیونکہ اس شراکت سے خرابی پیدا ہو رہی ہے، اور اگر اس قسم کی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ، بلکہ مسلمان خود ہی تمام معاملات سنبھال رہا ہے، اسی کے ہاتھ میں تمام باگ ڈور ہے ، مسلمان کو دھوکہ دہی کا بھی خدشہ نہیں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
پھر بھی بہتر یہی ہے کہ ایسی شراکت داری سے بچے اور اپنے مسلمان بھائیوں کیساتھ مل کر تجارت کرے، تا کہ مسلمان اپنے دین، مال کے بارے میں مکمل مطمئن ہو، کیونکہ دینی دشمن کے ساتھ تجارتی شراکت میں اخلاقی، دینی، مالی ہمہ قسم کے خطرات ہیں، اس لیے مؤمن کا ہر حال میں ان تمام امور سےدور رہنا بہتر ہے؛ تا کہ مسلمان کا دین، عزت آبرو، مال و جان یقینی طور پر محفوظ ہوں، اور اسے دینی دشمن کی خیانت اور دھوکہ دہی سے تحفظ ملے، لیکن اگر ضرورتایسی بن جائے تو پھر غیر مسلم کیساتھ شراکت قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ سابقہ تمام امور کو مد نظر رکھا جائے۔
یعنی: اس تجارتی شراکت کی وجہ سے دین، عزت آبرو، مالوغیرہپر کوئی نقصان نہ ہو، مسلمان خود تجارت کے امور نمٹائے، کافر کو کام نہ کرنے دے، یا پھر دونوں کی طرف سے کسی تیسرے شخص کو نائب بنا دیا جائے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " ( 1 / 377 ، 378 )
سوم:
آپ اپنی کمپنیاور تجارتی شراکت سے باہر نکل چکے ہیں اگر چہ آپ کاحصہ آپ کے شریک پر قرضہ ہے لیکن آپ کا کمپنی سے کوئی تعلق نہیں رہا، اس لئے کمپنی کے مال میں آپ پر کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
ہاں آپ اس قرضے کی زکاۃ دینگے جو آپ کو آپ کے شریک نے دینا ہے، چاہے آپ اس قرضہ کی رقم سے بلڈنگ ہی کیوں نہ بنائیں۔
چنانچہ جب تک آپ کے شریک کے ذمہ آپ کا قرضہ ہے اس کی زکاۃ آپ ہی ادا کرینگے، نیز قرضہ کی زکاۃ ادا کرنے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے جو ہم نے پہلے سوال نمبر: (1117) میں ذکر کر دی ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
اگر آپ کا شریک مالدار اور صاحب حیثیت ہے قرضہ واپس بھی کر سکتا ہے تو پھر آپ ہر سال اس کی زکاۃ ادا کریں، اور اگر تنگ دست یا ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، تو پھر محتاط یہی ہے کہ آپ قرضہ مکمل وصول کرنے کے بعد ایک سال کی زکاۃ ادا کر دیں۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (119047) کا مطالعہ بھی کریں، یہ بھی آپ ہی کے سوال سے ملتا جلتا ہے۔
واللہ اعلم