الحمد للہ.
اگر آپ اپنے بھائی کیساتھ یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ وہ آپکو سامان کی قیمت جو ایک ملین ہے کئی سالوں میں قسط وار ادا کرینگے تو یہ مبلغ آپ کے بھائی کے ذمہ قرض ہوگی، اور اس رقم کی زکاۃ ادا کی جائے گی، اس بارے میں تفصیل مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ:
1- اگر قرضہ ایسے شخص پر ہو جو قرضہ چکانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا انکاری بھی نہیں ہے تو پھر ہر سال آپ اس قرضہ کی زکاۃ ادا کرینگے، بالکل ایسے ہی جیسے کہ مال آپ کے پاس موجود ہوتا تو آپ ہی اس کی زکاۃ ادا کرتے۔
تاہم قرضہ کی زکاۃ کو قرضہ کی واپسی تک مؤخر بھی کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جب آپ یہ قرضہ واپس لے لیں تو گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا کر دیں۔
2- اگر قرضہ ایسے شخص پر ہے جو ادائیگی میں ٹال مٹول کر رہا ہے، یا سرے سے انکاری ہے، یا اتنا غریب ہے کہ ادائیگی کی سکت نہیں رکھتا تو پھر اس وقت تک زکاۃ آپ پر لازم نہیں ہے جب تک آپ کو قرضہ واپس نہ مل جائے، چنانچہ جس دن آپکو آپکی رقم واپس مل جائے تو اس دن سے اس رقم پر زکاۃ کی ادائیگی کا سال شروع ہو جائے گا، لیکن اگر آپ قرضہ واپس ملتے ہی ایک سال کی زکاۃ ادا کر دیں تو یہ اچھا اور محتاط عمل ہوگا۔
سوال میں مذکور گودام میں پڑے ہوئے آپ کے سامان پر زکاۃ آپ کا شریک ادا کریگا، کیونکہ وہ سامان آپ کے شریک نے آپ سے خرید لیا ہے، اور اب وہ اس دن سے اس کی ملکیت ہے جب سے آپ دونوں میں معاہدہ ہوا اور اس کی قیمت ادا کرنے کا طریقہ وضع کیا گیا۔
مزید کیلئے دیکھیں: "المغنی" (2/345) اور "الموسوعة الفقهية" (23/238)
نیز سوال نمبر: (1346) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.