الحمد للہ.
ايك چيز پر تنبيہ كرنا ضروري ہے وہ يہ كہ آپ نے سوال ميں قانون شريعت كےالفاظ كہے ہيں جوصحيح تعبير نہيں بلكہ آپ كوچاہيےتھا كہ اس كےبدلے آپ شريعت اسلاميہ كےاحكام كےالفاظ استعمال كرتيں .
آپ نےجوسوال كيا ہے اس سے وضاحت ہوتي ہے كہ وراثت آپ كي والد كے خاوند اور آپ بہن بھائيوں كےمابين ہي منحصر ہے ، ان ميں دو مرد اور اور دو ہي عورتيں ہيں .
آپ كے ليے مال تقسيم كرنے كا آسان طريقہ يہ ہے كہ مال كے بارہ حصے كريں جن ميں سے آپ كي والدہ كا خاوند تين حصے لےگا اور باقي سارا مال آپ اور آپ كےبہن بھائيوں كےمابين اس طرح تقسيم ہوگا كہ لڑكے كو دولڑكيوں كے برابر حصہ ملےگا ( يا باقي مال كوسات حصوں ميں تقسيم كريں جن ميں سے لڑكا دوحصے اور لڑكي ايك حصہ لےگي ) .
مثلا اگر دس ہزار روپيہ ہو تو اس ميں سے خاوند كو ( 2500 ) دے كر باقي ( 7500 ) بچےگا جو سات حصوں ميں تقسيم ہوگا تو اس طرح ايك حصہ ( 1071.5 ) روپے بنےگا جوكہ ايك لڑكي كا حصہ ہے تواسے دوسےضرب ديں تو ( 2143 ) روپے بنتے ہيں جوايك لڑكے كا حصہ ہوگا .
مذكورہ تقسيم اس وقت ہے جب ورثاء اپنا وہ حصہ حاصل كرنا چاہيں جو اللہ تعالي نے ان كےليے مقرر كرركھا ہے ، ليكن اگر ورثاء آپس ميں كوئي صلح صفائي كےساتھ تقسيم پر راضي ہوتے ہيں مثلا آپس ميں وہ برابر برابر لينے پر اتفاق كرليں توپھر خاوند اور اولاد ميں كوئي فرق نہيں ہوگا اور نہ ہي لڑكے اور لڑكي ميں فرق كيا جائےگا تو يہ بھي شرعا جائز ہے ، ليكن اس كي قانوني تطبيق اور نفاذ آپ كےملك كےنظام اورقانون پر منحصر ہے .