الحمد للہ.
اول:
مريض كے ليے رمضان البمارك ميں روزہ چھوڑنا جائز ہے اور جتنے روزے چھوڑے بعد ميں ركھ سكتا ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے، اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں كرنا چاہتا البقرۃ ( 185 ).
استحاضہ اور مسلسل خون آنا ايك قسم كى بيمارى ہے اور يہ نفس اور بدن پر اثرانداز ہو سكتى ہے، اس ليے جس كا علاج كراناضرورى ہے اس كا چيك اپ كرانے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے يہ رمضان المبارك ميں دن كے وقت ہى كرانا پڑے ليكن بہتر ہے كہ اسے رات تك مؤخر كر ديا جائے.
اور يہ معلوم ہونا چاہيے كہ يہ چيك اپ اور الٹرا ساونڈ كرانے سے روزہ نہيں ٹوٹتا جب تك كہ مريض منہ يا ناك كے راستے كوئى دوائى نہ كھائے.
روزہ توڑنے اور نہ توڑنے والى اشياء كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 2299 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور اگر يہ چيك اپ كوئى دوائى يا پانى نوش كرنے كا محتاج ہے، اور يہ فجر سے قبل نوش كرنى ممكن ہو تو آپ ايسا كر ليں، وگرنہ آپ كے ليے روزہ نہ ركھنا بھى جائز ہے.
دوم:
اكثر علماء كے ہاں حيض كى زيادہ سے زيادہ مدت پندرہ يوم ہے، اس سے زائد نہيں ہو سكتى.
اس بنا پر ليڈى ڈاكٹر نے آپ كو جو كہا ہے وہ صحيح ہے كہ آپ كو آنے والا خون استحاضہ كا خون ہے حيض كا نہيں، استحاضہ كے خون كا حكم جاننے كے ليے اور يہ معلوم كرنے كے ليے كہ آنے والا خون كب حيض كا خون ہوتا ہے آپ سوال نمبر ( 68818 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .