الحمد للہ.
اگر تو يہ شخص جس كا رشتہ آيا ہے اس وقت دين و اخلاق والا ہے، تو اس رشتہ سے انكار نہيں كرنا چاہيے، اور پھر صرف اس ليے رشتہ نہ كيا جائے كہ اس شخص كا ماضى گناہوں سے اٹا ہوا تھا، حالانكہ وہ ان گناہوں نے توبہ كر چكا ہے، اور اپنے ماضى پر نادم ہے.
اس طرح كے شكوك و شبہات پيدا كرنے، اور برا گمان كرنے كى كوئى ضرورت نہيں ہے، كتنے ہى گنہگاروں كو اللہ سبحانہ و تعالى نے ہدايت دى اور اسے توفيق دے كر اسے عزت سے نوازا اور خير و بھلائى كے راستے آسان كر دے.
حالانكہ وہ گندگى و شر كى اتھاہ گھرائيوں ميں گرا ہوا تھا، بيٹى كو حاصل نہ كر سكنے كى بنا پر اسے چھوڑنے كا يہ معنى نہيں كہ اللہ اسے ہدايت دے دے تو وہ اپنى بيوى اور اولاد كو بھى چھوڑ دےگا.
اس ليے اس مسئلہ ميں ديكھا يہ جائيگا كہ اب اور اس وقت اس كى حالت كيا ہے، اگر تو وہ نيك و صالح ہے تو پھر رشتہ سے انكار نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ يہ چيز حديث كے خلاف ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس سے ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فتنہ بپا ہوجائيگا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
ليكن اس كے نيك و صالح ہونے كے ليے اس كا خود كہنا كہ وہ صالح اور نيك ہے اور نماز روزہ كى پابندى كرتا ہے، يا عمرہ كيا اور حج كرنا چاہتا ہے، بلكہ اس كے ليے اس كے دوست و احباب اور پڑوسيوں اور مسجد كے امام وغيرہ سے اس كے متعلق دريافت كيا جائيگا، جو اس كے معاملات كا علم ركھتے ہيں.
آپ كے گھر والوں ميں سے اس رشتہ پر اعتراض كرنے والوں كو كم از كم اس كے بارہ ميں شك كرنے كا حق حاصل ہے اس ليے اس رشتہ كو قبول كرنے ميں جلدبازى سے كام نہيں لينا چاہيے، بلكہ اس كى استقامت اور صالح ہونا واضح ہو جائے تو ٹھيك، اور اگر آپ كو اس كے متعلق كوئى شك ہو يا تردد ہو جائے تو پھر بچنا اور اجتناب كرنا ہى بہتر ہے.
مزيد تفصيلات كے ليے سوال نمبر ( 5202 ) اور ( 105728 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں، ان ميں خاوند ميں پائى جانى ضرورى صفات اور منگيتر كے حالات معلوم كرنے كے وسائل بيان كيے گئے ہيں.
اسى طرح سوال نمبر ( 97240 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں، اس ميں ہم نے خراب ماضى والے شخص كے رشتہ كو قبول كرنے كے بارہ ميں چند ايك نصيحتيں اور راہنمائى بيان كى ہيں اس ميں بيان كيا گيا ہے كہ:
" ليكن آپ كے اختيار كا حكم اس طرح كہ آپ كے ليے اس كا دين اور اخلاق واضح ہوا ہے اس كے مطابق حكم ہوگا، كيونكہ اس نے آپ كا خاوند بننا ہے، آيا اس ميں يہ صلاحيت ہے كہ وہ آپ كے دين اور عزت كى حفاظت كر سكےگا.
آيا آپ اس كے ساتھ رہتے ہوئے اپنى عزت اور اپنے دين كو محفوظ ركھ سكيں گى، يہ اس كے مطابق ہى ہے جو ہم آپ كے ليے پہلے بيان كر چكے ہيں، يہ نہيں كہ اللہ تعالى اسے آپ كے ہاتھوں ہدايت دے، كيونكہ مرد كى اپنى بيوى پر تاثير اور اثراندازى زيادہ ہوتى ہے، ليكن عورت بہت كم اپنے خاوند پر اثرانداز ہوتى ہے.
اور خاص كر ہدايت و ا ستقامت كے اعتبار سے، اگر آپ اس كى بہت حالت پر مطمئن نہيں اور اس كى سچى توبہ سے مطئمن نہيں تو پھر اس حالت ميں ہم آپ كو اسے اپنا شريك حيات بنانے كى نصيحت نہيں كرتے.
آپ كے گھر والوں كو اس آدمى كے حالات جاننے اور معلوم كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور ان معلومات كى بنا پر آپ اپنا كوئى آخرى فيصلہ كريں، اور اس كے ساتھ ساتھ استخارہ كرنا مت بھوليں، كہ اللہ آپ كو صحيح راہ كى توفيق دے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .