الحمد للہ.
نواقض يعنى وضوء توڑنے والى اشياء مشہور و معروف ہيں جن كا سوال نمبر ( 14321 ) كے جواب ميں كيا جا چكا ہے، اور ان اشياء ميں نجاست كو چھونا شامل نہيں ہے.
ليكن .... جو نجاست كو چھوئے تو اس نجاست كو دھونے سے قبل اس كے ليے نماز ادا كرنى جائز نہيں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جناب والا ميں ڈاكٹر ہوں اور بعض اوقات چيك اپ كے ليے مريض كى شرمگاہ ديكھنا اور اسے چھونا پڑتا ہے اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے؟
اور بعض اوقات سرجن كو ايسا آپريشن كرنا پڑتا ہے جو خون اور پيشاب سے بھرا ہوا كيا ايسے حالات ميں اس كے ليے وضوء كرنا واجب ہے يا افضل ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
ڈاكٹر كے ليے ضرورت كے وقت مريض كے شرمگاہ چھونے اور اسے ديكھنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے اگلا حصہ ہو يا پچھلا حصہ ضرورت كے وقت اسے ديكھ اور چھو سكتا ہے، اور اگر ضرورت پڑے تو زخم سے خون دور كرنے يا زخم كى حالت معلوم كرنے كے ليے اسے چھو بھى سكتا ہے اور اس كے بعد جو كچھ لگا ہو اسے دھو كر صاف كر لے، اور خون يا پيشاب چھونے سے وضوء نہيں ٹوٹےگا.
ليكن اگر شرمگاہ كو چھوا ہو تو وضوء ٹوٹ جائيگا چاہے اگلا حصہ كو چھوا ہے يا پچھلے حصہ كو، ليكن خون يا پيشاب يا كسى اور دوسرى نجس اشياء كو چھونے سے وضوء نہيں ٹوٹتا ليكن جو كچھ لگا ہو اسے دھونا ہوگا... الخ اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 6 / 20 ).
واللہ اعلم .