سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا تمباکو نوش کو خود کش کہا جائے گا؟

129692

تاریخ اشاعت : 12-10-2014

مشاہدات : 12191

سوال

سوال: یہ بات تو معلوم ہے کہ تمباکو نوشی حرام ہے، لیکن کیا تمباکو نوشی کی وجہ سے مرنے والے تمباکو نوش کو خود کش کہا جائے گا؟ کیونکہ یہ بات تو معروف ہے کہ تمباکو نوشی یا سگریٹ میں جان لیوا زہریلا کینسر پیدا کرنے والا مادہ پایا جاتا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ :(جو شخص زہر کھانے کی وجہ سے مرا تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا) کی روشنی میں تمباکو نوش کو خودکش سمجھا جائے گا؟
اور میرے متعلق یہ ہے کہ میں بہت ہی کم سگریٹ نوشی کرتا ہوں وہ بھی صرف تفریح کیلئے ،اسکا کیا حکم ہے؟ اور کیا سگریٹ کو حدیث مبارکہ :(ہر نشہ آور چیز شراب ہے) اور اسی طرح : (جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ثابت ہو اسکی قلیل مقدار بھی حرام ہے) کی وجہ سے شراب شمار کیا جائے گا؟ اور کیا یہی بات حقہ پر بھی لاگو ہوتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تمباکو نوشی حرام ہے؛ کیونکہ اس میں فضول خرچی، نقصان اور خباثت پائی جاتی ہے، اس بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر (10922) اور (9083) کا مطالعہ کریں۔

جبکہ تمباکونوشی کو زہر کھا کر خودکشی کرنے والے کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا ، لیکن اسکی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں یا ہمیشہ کیلئے انسانی اعضاء ناکارہ ہوجاتے ہیں، اس بنا پر تمباکو نوشی ہے حرام ضرور ہے۔

جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (نہ اپنے آپ کو نقصان دو اور نہ ہی کسی کو نقصان پہچاؤ)

اسے أحمد اور ابن ماجہ (2341) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحيح ابن ماجہ میں صحیح کہا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"جو شخص تمباکو نوشی کی وجہ سے فوت ہوجائے تو کیا اسے خود کش کہا جائے گا؟

شیخ: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اس نے مرنے کیلئے تمباکو نوشی کی؟

سائل: نہیں۔

شیخ: لہذا وہ خود کش نہیں ہے۔۔۔۔

اپنے آپ کو قتل کرنے کاارادہ رکھنے اور نہ رکھنے والے میں فرق ہے۔

ہاں یہ ضرور کہا جائے گا کہ: تمباکونوشی بسا اوقات موت کا سبب بن جاتی ہے تو یہ تمباکو نوشی کے حرام ہونے کیلئے قوی ترین دلیل ہے، یہی وجہ ہے کہ مجھے تمباکو نوشی کے حرام ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے،کیونکہ تمباکو نوشی میں جسمانی، اخلاقی، اور مالی سب نقصانات موجود ہیں، آپ جانتے ہی ہیں کہ کچھ لوگ سگریٹ حاصل کرنے کیلئے اپنی عزت کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

بہر حال: سگریٹ نوشی ہمارے ہاں حرام ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ تمباکو نوشی کرنے والا خود کشی کا مرتکب ہے، کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو مارنا نہیں چاہتا"انتہی

"لقاء الباب المفتوح" (198/14) مختصراً

تمباکو نوشی کو شراب بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ تمباکو نوشی تھوڑی ہو یا زیادہ کسی بھی شکل میں نشہ آور نہیں ۔

اسی طرح شیشہ اور حقہ بھی نشہ آور نہیں ہے[بشرطیکہ تمباکو کیساتھ دیگر کوئی اور نشہ آور چیز شامل نہ ہو۔ مترجم]۔

تمباکو نوشی سے حاصل ہونے والا دھواں نقصان دہ ، بدبودار،ہوتا ہے جسکا کوئی فائدہ نہیں ، اسی لئے تمباکونوشی کیلئے پیسہ ضائع کرنا عقلمندی والا کام نہیں ہے۔

اگر سگریٹ نوش کو اس بات کا علم ہوجائے کہ اسے ہر سگریٹ کے پینے پر گناہ ملے گا، اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کریگا، جس سے اسکے دل پر سیاہ داغ بنتے جائیں گے، اور آہستہ آہستہ اسکا سارا دل ہی کالا ہوجائے گا، تو امید ہے کہ رضائے الہی کے حصول اور عذابِ الہی سے بچنے کیلئے سگریٹ نوشی چھوڑ دے۔

فرمانِ نبوی ہے: (جب انسان کوئی غلطی کرے تو اسکے دل پر سیاہ نکتہ بن جاتا ہے، اور اگر وہ توبہ استغفار کر لے تو اسکا دل صاف کردیا جاتا ہے، اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو سیاہی میں اضافہ کردیا جاتا ہے، حتی کہ سارا دل ہی سیاہ ہوجاتا ہے، یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالی نے ذکر کیا اور فرمایا: (بلکہ انکے کرتوتوں کی وجہ سے انکے دلوں پر زنگ چڑھ چکا ہے))

اسے ترمذی (3334) اور ابن ماجہ (4244) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحيح ترمذی میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

آپکے لئے ضروری ہے کہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ ابھی تمباکو نوشی کے عادی نہیں بنے، اور ابھی آپکو تمباکو نوشی ترک کرنے پر کسی قسم کی تنگی بھی نہیں ہوگی، اس لئے آپ جلد از جلد توبہ کریں اور تمباکو نوشی چھوڑ دیں، کیونکہ اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء تفریح کیلئے نہیں ہوتیں، چنانچہ کبھی انسان کو حرام کام کے متعلق تساہل برتنے کی وجہ سے بھی عذاب ہوسکتا ہے، کہ انسان حرام کا عادی بن جائے اور اسے چھوڑنے میں دقت پیش آئے۔ ہم اللہ تعالی سے عافیت وسلامتی مانگتے ہیں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب