الحمد للہ.
یہ حدیث منکر ہے صحیح نہیں ہے، اس کی کوئی بھی سند قابل قبول نہیں ہے، نہ ہی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی گفتگو سے ثابت ہوتی ہے، ویسے بھی زمینی حقائق اس بات کی تردید کرتے ہیں؛ کیونکہ پہلے کئی سالوں میں ایسے ہوا ہے کہ پندرہ رمضان المبارک کو جمعہ کا دن آیا ہے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، اس لیے اہل علم اس روایت کے بارے میں من گھڑت ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔
جیسے کہ علامہ عقیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ روایت کسی ثقہ راوی کی حدیث نہیں ہے، نہ ہی یہ کسی سند سے ثابت ہے۔" ختم شد
" الضعفاء الكبير " (3/52)
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ایک خاص باب قائم کر کے اسے عنوان دیا ہے کہ: "باب ہے مخصوص مہینوں میں نشانیوں کے عیاں ہونے کے بارے میں" پھر کہا: "یہ حدیث گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کی گئی ہے۔" ختم شد
" الموضوعات " (3/191)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس روایت کو " المنار المنيف " (ص/98) میں مستقبل کی تاریخوں کے بارے میں غیر ثابت شدہ احادیث کے ضمن میں نقل کیا ہے ، آپ کہتے ہیں: "جیسے کہ ایک حدیث ہے: رمضان میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئے گی، جو سوئے ہوئے کو بیدار کر دے گی اور کھڑے ہوئے کو بٹھا دے گی، نوخیز لڑکیوں کو اپنے پردوں سے باہر نکال دے گی۔ اور شوال کے مہینے میں رکاوٹ کھڑی کر دے گی، ذوالقعدہ میں مختلف قبائل کو ایک دوسرے سے جدا کر دے گی، اور ذو الحجہ میں خون بہائے گی۔ اسی طرح یہ روایت بھی کہ: نصف رمضان کی رات جمعہ کی رات جب ہو گی تو اس رات میں ایک سخت آواز آئے گی جس سے 70 ہزار لوگ بے ہوش ہو جائیں گے، اور 70 ہزار لوگ ہی بہرے ہو جائیں گے۔" ختم شد
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ روایت من گھڑت ہے، اس روایت کو نعیم بن حماد نے "الفتن " (ق 160/1) میں روایت کیا ہے اور نعیم ہی کی سند سے ابو عبد اللہ الحاکم (4/517 - 518) نے روایت کیا ہے، اسی طرح ابو نعیم نے اسے "أخبار أصبهان " (2/199) میں ابن وھب عن مسلمہ بن علی عن قتادة ، عن ابن المسيب ، عن أبي هريرة کی سند سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔
حاکم نے اسے بیان کر کے کہا: اس روایت کا متن عجیب و غریب ہے، اور اس کا راوی مسلمہ بن علی اس معیار کا نہیں ہے کہ اس کی بات حجت ہو۔
جبکہ علامہ ذہبی کہتے ہیں: میرے مطابق یہ روایت من گھڑت ہے، جبکہ مسلمہ بن علی ساقط اور متروک راوی ہے۔
یہی روایت دیگر اسانید کے ذریعے بھی منقول ہے جو کہ علامہ سیوطی نے "اللآلي " (2/387 - 388) میں بیان کی ہیں جو کہ سب کی سب معلول ہیں، کچھ طویل ہیں تو کچھ مختصر بھی ہیں، طویل ترین روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے، -پھر علامہ البانی نے یہ روایت مختلف الفاظ سے بیان کی – : رمضان میں ایک تیز آواز ہو گی، لوگوں نے کہا: آغاز رمضان میں یا درمیان میں یا آخر میں؟ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ ماہ رمضان کے درمیان میں جب رمضان کا نصف جمعہ کی رات ہو گی، یہ آواز آسمان سے آئے گی ، اس سے ستر ہزار لوگ بے ہوش ہو جائیں گے، اور ستر ہزار گونگے ہو جائیں گے، اور ستر ہزار لوگ اندھے ہو جائیں گے، جبکہ ستر ہزار لوگ بہرے ہو جائیں گے۔ لوگوں نے کہا: آپ کی امت میں سے کون بچ پائے گا؟ آپ نے فرمایا: جو اپنے گھر میں رہے اور سجدے کی حالت میں اعوذ باللہ پڑھے اور بلند آواز سے تکبیر کہے۔ اس آواز کے بعد ایک اور آواز بھی آئے گی، پہلی آواز جبریل کی ہو گی جبکہ دوسری آواز شیطان کی ہو گی۔ لہذا آواز رمضان میں ہو گی جبکہ شدید گرمی شوال میں ہو گی، ذوالقعدہ میں قبائل کے درمیان تفریق ہو گی، اور ذوالحجہ میں حجاج پر حملہ کیا جائے گا، اور محرم میں ، محرم کیا ہے؟ اس کا آغاز میری امت پر آزمائش ہے، اس کا آخری حصہ میری امت کے لیے خوشی ہے۔ اس زمانے میں مومن کے پاس چھوٹے پالان والی اونٹ کی سواری ایسی ہموار زر خیز زمین سے بہتر ہے جو اس کے لیے ایک لاکھ چیزیں پیدا کرے۔" اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ روایت من گھڑت ہے، اس روایت کو طبرانی نے "المعجم الكبير" (18/332/853) میں اور انہی کی سند سے ابن الجوزی نے "الموضوعات ، (3/ 191) میں عبد الوهاب بن الضحاك ، عن إسماعيل بن عياش ، عن الأوزاعي ، عن عبدة بن أبي لبابة ، عن فيروز الديلمي کی سند سے مرفوعا بیان کی اور پھر اس کے بعد کہا: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ عقیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: عبد الوہاب نامی راوی کسی قابل نہیں ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ شخص احادیث چوری کیا کرتا تھا؛ اس لیے اس کو حجت بنانا درست نہیں ہے۔ علامہ دارقطنی کہتے ہیں: یہ منکر الحدیث ہے۔ جبکہ اسماعیل : ضعیف، اور عبدہ کی فیروز سے ملاقات ہی ثابت نہیں ہے، اور فیروز نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا تک نہیں ہے۔" ختم شد مختصراً
" السلسلة الضعيفة " حدیث نمبر: (6178، 6179)
الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ جاہل لوگ ایک پمفلٹ تقسیم کر رہے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف غلط منسوب روایت لکھی گئی ہے جس کا متن درج ذیل ہے:
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب آواز رمضان میں ہو تو شوال میں شدید گرمی ہو گی، ذوالقعدہ میں قبائل کے درمیان تفریق ہو گی، اور ذوالحجہ و محرم میں خون خرابہ ہو گا، اور محرم کیا ہے؟ آپ نے یہ سوال تین بار کیا، تباہی ہی تباہی ہے، لوگ اس ماہ میں بہت زیادہ قتل کیے جائیں گے۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! یہ آواز کیسی ہو گی؟ تو آپ نے فرمایا: یہ رمضان کے نصف میں آنے والے جمعہ کی رات کو ہو گی، جس میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئے گی، جو سوئے ہوئے کو بیدار کر دے گی اور کھڑے ہوئے کو بٹھا دے گی، نو خیز لڑکیوں کو جمعہ کی رات اپنے پردوں سے باہر نکال دے گی۔ یہ اس سال میں ہو گا جب کثرت سے زلزلے آئیں گے اور نہایت شدید سردی ہو گی، جب اس سال رمضان کا آغاز جمعہ کی رات سے ہو اور جب تم نصف رمضان کو جمعہ کے دن فجر کی نماز ادا کر لو تو اپنے گھروں میں چلے جاؤ اور دروازے بند کر دو، کھڑکیاں اور روشن دان بند کر دو، اپنے آپ پر چادریں ڈال لو، اپنے کان بند کر لو، اور جب چیخ کی آواز سنو تو اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جاؤ، اور کہو: {سبحان القدوس ، سبحان القدوس ، ربنا القدوس} کیونکہ یہ عمل کرنے والا ہی بچ پائے گا اور جو یہ عمل نہیں کرے گا وہ نہیں بچ پائے گا۔
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ باطل اور جھوٹ ہے، مسلمانوں نے ایسے بہت سے سال دیکھے ہیں جن میں نصف رمضان کی رات جمعہ کی رات تھی لیکن پھر بھی چیخ وغیرہ جیسا کچھ نہیں ہوا جو اس خود ساختہ روایت میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو بھی یہ پمفلٹ ملے تو اس کے لیے اس جھوٹی روایت کو آگے پھیلانا بالکل بھی جائز نہیں ہے، بلکہ اسے پھاڑ کر تلف کر دے اور پھیلانے والے کو اس کے متعلق متنبہ بھی کرے، تاہم یہ بات ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ہر وقت اللہ تعالی سے ڈرے، اور جن کاموں سے اللہ تعالی نے روکا ہے ان سے موت آنے تک رکا رہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ترجمہ: اور اپنے رب کی عبادت کر یہاں تک کہ تمہیں یقین آ جائے۔ [الحجر: 99] یہاں یقین سے مراد موت ہے۔ ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی ایسے اپناؤ جیسے اپنانے کا حق ہے، اور تمہیں موت آئے تو صرف اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔[آل عمران: 102] دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (جہاں بھی رہو تقوی الہی اپناؤ۔ برائی کے بعد نیکی کر لو، نیکی برائی مٹا دے گی۔ اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ)
ہر وقت تقوی اپنانے اور حق بات پر استقامت اختیار کیے رکھنے کے متعلق آیات و احادیث بہت زیادہ ہیں، یہ رمضان ہو یا غیر رمضان ہمیں ہر وقت اللہ تعالی کی منع کردہ چیزوں سے رکے رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، انہیں دین کی صحیح سمجھ عطا کرے، ہمیں اور تمام مسلمانوں کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ رکھے، داعیان باطل کے شر سے محفوظ فرمائے؛ یقیناً وہی بہت سخی اور کرم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی ہمارے نبی محمد آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن باز " (26/339-341)
واللہ اعلم