سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا كتے كو چھونے سے ہاتھ نجس ہو جاتا ہے ؟

13356

تاریخ اشاعت : 03-10-2008

مشاہدات : 10193

سوال

كيا كتے كو چھونا حرام ہے يا مكروہ ؟
ميں نے كئى مسلمانوں سے سنا ہے كہ كتا نجس اور پليد ہے، اور ان پر ابليس تھوكتا بھى ہے، اور يہ كہ جب ہم كتے كو چھوئيں تو كئى بار ہميں اپنے ہاتھ دھونا ہونگے، ليكن قرآن مجيد اور سنت نبويہ اور اسلامى كتب ميں مجھے يہ كہيں نہيں ملا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس سوال كے جواب كى دو شقيں ہيں:

پہلى شق:

كتا پالنے كا حكم:

" انسان كے ليے كتا ركھنا حرام ہے، صرف چند ايك امور كے ليے كتا ركھنا جائز ہے جس كے ليے شريعت مطہرہ نے اجازت دى ہے، جس نے بھى شكار يا كھيت كى ركھوالى كے علاوہ كسى اور مقصد كے ليے كتا ركھا روزانہ اس كے اجروثواب ميں سے ايك قيراط يا دو قيراط اجر كم كر ديا جاتا ہے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جس نے بھى شكار يا چوپايوں كى ركھوالى كے علاوہ كسى اور مقصد كے ليے كتا ركھا تو اس كے اجر سے ہر روز دو قيراط اجر كم كر ديا جاتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5059 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2941 ) اور ايك روايت ميں ايك قيراط كے الفاظ ہيں.

قيراط اجروثواب كى عظيم مقدار سے كنايہ ہے، اور اگر ہر روز اس كے اجر سے ايك قيراط كم ہوتا ہے تو پھر وہ اس سے گنہگار ہوگا، كيونكہ اجروثواب فوت ہونا گنہگار ہونے كے مترادف ہے، دونوں ہى حرمت پر دلالت كرتے ہيں، يعنى اس كے نتيجہ ميں جو مرتب ہوتا ہے وہ حرمت پر دلالت كرتا ہے.

جانوروں كى نجاست ميں كتے كى نجاست سب سے بڑى نجاست ہے كيونكہ كتے كى نجاست سات بار جس ميں ايك بار مٹى سے دھوئے بغير ختم نہيں ہوتى، حتى كہ خنزير جس كى حرمت قرآن ميں بھى بيان ہوئى ہے اور وہ پليد ہے وہ كتے كى نجاست كى حد تك نہيں پہنچتا.

اس ليے كتا نجس اور خبيث ہے، ليكن بہت شديد افسوس ہے كہ بعض مسلمان بھى كفار كے دھوكے ميں آكر ان كى طرح خبيث اشياء كے ساتھ الفت و محبت كرنے لگے ہيں اور ان كى تقليد كرتے ہوئے بغير كسى ضرورت كتے ركھنے كا شوق ركھتے ہيں، انہيں پالتے پوستے ہيں، اور ان كى صفالى ستھرائى كرتے ہيں حالانكہ وہ كبھى بھى صاف نہيں ہو سكتے چاہے اسے سمندر كے سارے پانى سے بھى نہلا ديں، كيونكہ وہ عينى نجاست ہے.

اس ليے ايسے لوگوں كو ہمارى نصيحت ہے كہ وہ اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرتے ہوئے اپنے گھروں سے كتے نكال ديں.

ليكن جو شخص شكار يا كھيت يا چوپايوں كى حفاظت كے ليے كتا ركھنے كا محتاج ہو اس كے ليے ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے كى اجازت دى ہے...

اگر آپ اس كتے كو اپنے گھر سے نكال ديں اور دھتكار ديں تو پھر اس كے بعد آپ اس كے مسئول نہيں، لہذا اسے آپ اپنے پاس نہ ركھيں اور نہ ہى اسے پناہ ديں.

دوسرى شق:

كتے كو چھونے كا حكم:

" اگر اسے بغير كسى رطوبت اور نمى كے چھوا جائے تو ہاتھ نجس نہيں ہوتا، اور اگر اسے رطوبت و نمى كى حالت ميں چھوا جائے تو اكثر اہل علم كى رائے ميں اس سے ہاتھ نجس ہو جاتا ہے، اور اس كے بعد سات بار جس ميں ايك بار مٹى سے ہاتھ دھونا واجب ہوگا.

رہا برتنوں كا مسئلہ تو اگر كتا كسى برتن ميں منہ ڈالے تو اس برتن كو سات بار دھونا واجب ہے، جس ميں ايك بار مٹى سے دھونا شامل ہے جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم وغيرہ كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب كتا تمہارے كسى برتن ميں منہ ڈال دے تو اسے سات بار جس ميں ايك مٹى سے دھوؤ "

بہتر يہ ہے كہ پہلى بار مٹى مل كر دھويا جائے.

واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ محمد بن عثيمين ( 11 / 246 ).

اور كتاب: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 447 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد