الحمد للہ.
اول:
ایسے کریڈٹ کارڈ جن میں قرض کی واپسی پر تاخیر کی صورت میں زیادہ رقم دینی پڑے تو انہیں استعمال کرنا حرام ہے، کیونکہ یہ شرط سود پر مبنی ہے۔
اس بارے میں تفصیل پہلے سوال نمبر: (106245) کے جواب میں گزر چکی ہے۔
دوم:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں زکاۃ کے مصارف ذکر کرتے ہوئے "الغارمين" کا ذکر کیا ہے، اور یہاں "غارم" سے مراد مقروض ہی ہے، چنانچہ جس شخص نے اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کیلئے قرضہ اٹھایا لیکن پھر قرضہ اتارنے سے عاجز ہو گیا تو اسے زکاۃ میں سے اس قدر رقم دی جائے گی جس کے ادا کرنے سے وہ عاجز تھا تاکہ اس کا قرضہ اتر جائے ۔
نیز مقروض شخص کو زکاۃ دینے کیلئے یہ بھی شرط ہے کہ: اس کا یہ قرض کسی گناہ کی وجہ سے نہ ہو، مثلاً: کوئی شخص شراب نوشی، جوا اور سودی لین دین میں مقروض ہوا ہو تو اسے توبہ کی تمام شرائط [گناہ چھوڑ دے، اپنے کیے پر پشیمان ہو، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے]پوری ہونے تک زکاۃ نہیں دی جا سکتی، چنانچہ توبہ کرنے کے بعد اسکے زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر قرضہ کسی گناہ کی وجہ سے چڑھا ہو تو بلا اختلاف اسے زکاۃ نہیں دی جا سکتی" انتہی
"الإنصاف" (3/ 247)
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مقروض شخص کو زکاۃ دینے کی یہ شرط لگانا جائز و درست ہےکہ قرضہ گناہ کی وجہ سے نہ چڑھا ہو ؛ کیونکہ زکاۃ کی رقم اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کی جا سکتی، اور نہ ہی ایسے امور میں زکاۃ استعمال کی جا سکتی ہے جن کے ذریعے گناہ کے راستے ہموار ہوں" انتہی
"السيل الجرار" (2 / 59)
مزید کیلئے سوال نمبر: (99829)
چونکہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے قرضہ لینا حرام ہے، اس لیے اس قرضہ کی ادائیگی زکاۃ کے مال سے کرنا جائز نہیں ہوگا؛ بشرطیکہ مقروض سودی قرضہ لینے سے توبہ کر لے، اور اس پر پشیمان ہو، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کر لے، تو ایسی صورت میں اس کا سودی قرضہ زکاۃ سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر گناہ سے توبہ نہ کرے بلکہ گناہ پر ڈٹا رہے تو پھر اسے مقروض لوگوں کے زمرے میں شامل کر کے زکاۃ کی رقم ادا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ گناہ پر اصرار کی وجہ سے اسے زکاۃ دینا منع ہے، چنانچہ اس کی چٹی زکاۃ میں سے بھر کر گناہ کے امور پر اسکی معاونت کرنا بھی حرام ہوگا" انتہی
"الحاوی" (8 / 508)
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ ایک سوال کہتے ہیں:
"مسئلہ: جو شخص کسی گناہ کی وجہ سے مقروض ہو گیا ہو تو کیا ہم اسے زکاۃ دیں؟
جواب: اگر توبہ کر لے تو دینگے، وگرنہ نہیں دینگے؛ کیونکہ توبہ کے بغیر اس کی مدد گناہ پر مدد متصور ہوگی، کیونکہ اگر اب اسکا قرضہ ہم نے اتار دیا تو دوبارہ پھر گناہ کر کے قرضہ چڑھا لے گا" انتہی
"الشرح الممتع" (6/235)
ڈاکٹر عمر سلیمان اشقر کہتے ہیں:
"جو شخص سودی قرضہ کی وجہ سے مقروض ہو تو اس کا قرضہ زکاۃ کی مد سے ادا کرنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر سودی لین دین سے توبہ تائب ہو جائے تو پھر اس کا قرضہ زکاۃ کی مد سے ادا کیا جا سکتا ہے"
ماخوذ از: "أبحاث الندوة الخامسة لقضايا الزكاة المعاصرة" صفحہ: 210
واللہ اعلم.