جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ایک شخص نے کسی کی ڈیوٹی زکاۃ تقسیم کرنے کیلئے لگاتے ہوئے کہا: "یہ صدقے کا مال غریبوں میں تقسیم کر دے" تو کیا اس طرح اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی؟

145097

تاریخ اشاعت : 24-01-2016

مشاہدات : 2550

سوال

سوال: میں ہر سال اپنے مال کی زکاۃ ادا کرتا ہوں، اور ایک سال ایسے ہوا کہ میں نے اپنی زکاۃ اپنے بھائی کو غریبوں میں تقسیم کرنے کیلئے سپرد کر دی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مجھ سے زیادہ زکاۃ کے مستحقین کا علم ہے، چنانچہ میں نے انہیں زکاۃ کا مال دیتے ہوئے کہا: " یہ صدقے کا مال غریبوں میں تقسیم کر دیں" جبکہ میری نیت یہی تھی کہ یہ مال زکاۃ کا مال ہے، تو اب میرے ان الفاظ سے یہ زکاۃ ہی ادا ہوئی یا مجھے دوبارہ زکاۃ ادا کرنی پڑے گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

زکاۃ کی ادائیگی کیلئے نیت کرنا شرط ہے، نیز پہلے سوال نمبر: (130572) کے جواب میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

دوم:

زکاۃ کی نیت اور آپ کے لفظ : "صدقہ" میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ زکاۃ بھی صدقہ کی ایک قسم ہے، فرق یہ ہے کہ یہ فرض صدقہ ہے، چنانچہ جب تک زکاۃ کی نیت آپ کے دل میں ہے تو ان شاء اللہ یہ زکاۃ ہی ہوگی۔

اور ویسے بھی اگر کوئی انسان اپنے دل میں کچھ  نیت کر کے زبان سے بھول کر یا غلطی سے کوئی اور الفاظ ادا کر دے تو ایسی صورت میں الفاظ کی بجائے دل کے ارادے کو معتبر سمجھا جائے گا۔

چنانچہ خرشی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر الفاظ اور نیت میں اختلاف پیدا ہو جائے تو وہاں نیت کا اعتبار ہوگا، مثلاً: ظہر کی نیت کرنے والا عصر کا لفظ زبان سے کہہ دے" انتہی
"مختصر خلیل" (1/266)

اسی طرح رافعی رحمہ اللہ "العزیز شرح الوجیر" (3/263) میں کہتے ہیں:
"زبان سے نیت نہ بھی کریں تو اس سے کوئی کمی نہیں آئے گی، بلکہ اگر دل کے ارادے  سے متصادم الفاظ بھی اگر زبان سے ادا ہو جائیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، مثال کے طور پر کوئی ظہر کے ارادے سے عصر کا لفظ منہ سے نکال دے" انتہی

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نیت دل کے ارادے کا نام ہے، اور اسی کو قصد بھی کہتے ہیں،  کسی چیز کا ارادہ و قصد دل سے ہی ہوتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص دل سے ارادہ کر لے تو کافی ہے۔۔۔ اور  اگر سبقت لسانی کی وجہ سے  دل کے ارادے کے مخالف الفاظ زبان پر آ بھی جائیں تو نیت تبدیل نہیں ہوگی" انتہی
"المغنی"(1/79)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"وضو، غسل، تیمم، نماز، روزہ، زکاۃ، کفارہ، اور دیگر عبادات کی نیت  کیلئے زبان سے کچھ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس بات پر تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے، بلکہ سب اس پر متفق ہیں کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، چنانچہ اگر کسی شخص نے اپنے ارادے  سے ہٹ کر زبان سے کچھ اور الفاظ کہہ دیے تو  ایسی صورت میں دل کے ارادے کا اعتبار ہوگا، لفظوں کا اعتبار نہیں ہوگا، اس بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے، صرف متاخرین شافعی فقہائے کرام میں سے کچھ نے ایک جزوی صورت میں اختلاف کیا ہے، اور اس موقف کی تردید دیگر بڑے شافعی فقہائے کرام نے کر دی ہے" انتہی
"الفتاوى الكبرى" (1/213)

خلاصہ یہ ہے کہ:

مذکورہ زکاۃ ادا ہو چکی ہے، کیونکہ آپ نے اسے ادا کرتے ہوئے زکاۃ کی نیت ہی کی تھی، اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے، اور ہر شخص کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے نیت کی تھی) بخاری: (1) مسلم: (1907)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب