اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دیوالیہ ہو جانے کے احکام

سوال

میں جاننا چاہتا ہوں کہ دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنا اسلام کے مطابق جائز ہے یا نہیں؟ اگر میں دیوالیہ ہونے کا اعلان کرتا ہوں، تب بھی میں تسلیم کروں گا کہ مجھے ابھی بھی اپنا قرض ادا کرنا ہے، تو جب میرے حالات ٹھیک ہو جائیں تو میں کس کو قرض واپس کروں گا ؟ اس سلسلے میں آپ مجھے کیا رہنمائی دے سکتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دیوالیہ وہ شخص ہوتا ہے جس پر قرض کی مقدار ملکیت میں موجود دولت سے زیادہ ہو۔

اگر قرض خواہ حضرات مقتدر فرد سے یہ مطالبہ کریں کہ اس شخص کے لین دین پر پابندی لگا دیں، اور اس کے موجودہ مال کو قرض خواہوں میں تقسیم کر دیں تو مقتدر فرد پر ان کا مطالبہ پورا کرنا واجب ہو گا۔

الشیخ صالح فوزان حفظہ اللہ دیوالیہ پن کے احکامات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

“1- حجر یعنی مالی لین دین پر پابندی کا مطلب یہ ہے کہ: انسان کو اس کے ذاتی مال میں تصرف کرنے سے روک دیا جائے۔

اس کی دلیل قرآن کریم میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمْ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَاماً وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلاً مَعْرُوفاً * وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ترجمہ: تم اپنے مال بیوقوف لوگوں کو مت دو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اس پر نگہبان بنایا ہے، انہیں اس مال سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان کے لیے مفید بات ان سے کرو ٭ اور جب یتیم نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں پرکھو ؛ چنانچہ اگر تم ان میں خیر و بھلائی محسوس کرو تو انہیں ان کی دولت واپس کر دو۔ [النساء: 5 – 6]

تو ان دو آیات میں بیوقوف اور یتیم پر مالی لین دین کی پابندی کا ذکر ہوا ہے مبادا یہ اپنی دولت اجاڑ نہ بیٹھیں، پھر انہیں ان کی دولت واپس دی جائے تو خیر و بھلائی جانچنے کے بعد دی جائے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی کچھ صحابہ کرام پر قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے مالی لین دین پر پابندی لگا دی تھی۔

2- پابندی کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: کسی انسان پر پابندی کسی دوسرے کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے جائے، مثلاً: قرض خواہوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے دیوالیہ ہو جانے والے مقروض پر پابندی ۔

دوسری قسم: کسی انسان کے ذاتی مفاد کے لیے اس پر پابندی لگانا تا کہ انسان کا مال ضائع نہ ہو اور دولت اجاڑ نہ لے، مثلاً: چھوٹے بچے، پاگل اور مجنون پر لگائی گئی پابندی۔

3- پہلی قسم یعنی کسی دوسرے انسان کے حقوق کی وجہ سے لگائی گئی پابندی ، اس سے مراد مفلس شخص ہے، اور مفلس سے مراد وہ ہوتا ہے جس پر اتنا قرض ادا کرنے کا وقت آ چکا ہو جسے ادا کرنے کے لیے اس کے پاس دولت ناکافی ہو، تو ایسے شخص کو مالی لین دین سے روک دیا جاتا ہے تا کہ قرض خواہوں کو نقصان سے بچایا جائے۔

تنگ دست مقروض شخص جو اپنا قرض چکانے کی صلاحیت میں نہیں ہے تو اس سے فوری قرض واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے مزید مہلت دینا واجب ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ ترجمہ: اور اگر وہ تنگ دست ہو تو آسانی تک مہلت دینا ہے۔ [البقرۃ: 281]

لیکن ایسا شخص جو اپنا قرض چکانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے لین دین پر پابندی لگانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں پابندی لگانے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم جب قرض خواہ قرض کی واپسی کا مطالبہ کریں تو قرض واپس کرنے کا اسے حکم دیا جائے گا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (غنی آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔) یعنی غنی آدمی جو قرض چکانے کی صلاحیت رکھتا ہو پھر بھی ٹال مٹول سے کام لے تو یہ ظلم ہے؛ کیونکہ یہ شخص لوگوں کے وہ حقوق ادا نہیں کر رہا جو اس پر ادا کرنا واجب ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اگر یہ پھر بھی قرض واپس نہیں کرتا تو اسے قید میں ڈالا جائے گا۔ الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :جو شخص اپنا قرض چکا سکتا ہو، لیکن نہ چکائے تو اسے جسمانی سزا یا قید کر کے مجبور کیا جائے گا کہ وہ قرض چکائے، امام مالک، شافعی اور احمد کے شاگردوں اور دیگر نے اس بات کی صراحت کی ہے۔” الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ: “مجھے اس حوالے سے کسی کے اختلاف کا علم نہیں ہے۔” ختم شد

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (قرض چکانے کی طاقت رکھنے والا ٹال مٹول کرے تو اس کی عزت اچھالنا اور اسے سزا دینا حلال کر دیتا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد اور ابو داود وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں قرض چکانے سے رو گردانی کرنے والا شخص قید یا تعزیری سزا کا مستحق ہے، پھر یہ سزا تکرار کے ساتھ بھی دی جا سکتی ہے تاآں کہ وہ اپنے ذمے قرض چکا دے، اگر پھر بھی ادائیگی نہ کرے تو حکمران دخل اندازی کرتے ہوئے اس کی ملکیت میں موجود اشیا فروخت کر کے اس کے قرضے چکائے گا؛ کیونکہ یہاں حاکم شخص مقروض شخص کی نمائندگی کر رہا ہے، نیز حکمران کی دخل اندازی اس لیے بھی ضروری ہے کہ مقروض اور قرض خواہ دونوں کو نقصان سے بچائے، اور اس کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق یہ ہو گا کہ: (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی کسی دوسرے کو نقصان پہنچاؤ)

4-سابقہ تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقروض کی دو حالتیں ہیں:

پہلی حالت: مقروض پر قرض کی ادائیگی کا ابھی وقت نہ آیا ہو، تو ایسے شخص سے وقت سے پہلے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، نہ ہی وقت آنے سے پہلے اس کی ادائیگی لازم ہے، اسی طرح ادائیگی کے وقت سے پہلے اس کے پاس موجود رقم قرض کی رقم سے کم ہے تو تب بھی اس کے مالی لین دین پر پابندی نہیں لگائی جائے گی۔

دوسری حالت: قرض کی ادائیگی کا وقت ہو چکا ہو، تو اس کی پھر دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت: مقروض کی ملکیت میں مال قرض کی قیمت سے زیادہ ہو تو اس پر پابندی نہیں لگائی جائے گی، تاہم قرض خواہ کے قرض طلب کرنے پر ادائیگی کا اسے حکم دیا جائے گا، اگر قرض ادا نہ کرے تو قید یا تعزیری سزا دی جائے گی تا آں کہ قرض ادا کر دے، اگر قید یا تعزیری سزا بھی جھیل لے اور قرض ادا نہ کرے تو پھر حکومت وقت دخل اندازی کر کے اس کے مال میں سے قرض ادا کرے گی، اور اگر اس کی کسی چیز کو فروخت کرنے کی نوبت آئے تو بیچ کر قرض ادا کرے گی۔

دوسری صورت: مقروض کی ملکیت میں اتنی دولت نہ ہو جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکے، تو قرض خواہوں کے مطالبے پر ایسے شخص کے مالی لین دین پر پابندی لگا دی جائے گی، تا کہ قرض خواہوں کو نقصان نہ ہو؛ کیونکہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ پر مالی پابندی لگائی اور ان کا مال فروخت فرمایا۔) اس حدیث کو دارقطنی اور حاکم نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح ابن الصلاح کہتے ہیں کہ: یہ حدیث ثابت ہے۔

تو جب کسی مفلس پر مالی پابندی عائد کر دی جائے تو پھر اس کا اعلان بھی کیا جائے گا، اور لوگوں کو بتلایا جائے گا کہ یہ شخص کسی سے مالی لین دین نہیں کر سکتا، تا کہ لوگ بھی اس سے معاملات کرتے ہوئے متنبہ رہیں اگر انہوں نے اس سے لین دین کیا تو ان کا سرمایہ ضائع ہو سکتا ہے۔

5-حجر یعنی مالی پابندی کے ساتھ 4 قسم کے احکامات تعلق رکھتے ہیں:
پہلا حکم: محجور شخص [جس پر پابندی لگائی گئی]کے پابندی سے پہلے موجود مال پر قرض خواہوں کے حق کے متعلق ہے ، اور پابندی کے بعد حاصل ہونے والا مال بھی پہلے موجود مال کے ساتھ منسلک کیا جائے گا، چنانچہ محجور شخص پابندی لگنے کے بعد اپنے مال میں کسی قسم کا تصرف نہیں کر سکتا، بلکہ پابندی لگنے سے پہلے بھی اس شخص پر کوئی بھی ایسا تصرف کرنا حرام ہے جس سے قرض خواہوں کو نقصان ہو۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جب قرض اور ملکیت میں موجود مال دونوں برابر ہو جائیں تو مقروض شخص کا اپنے مال میں سے ایسا صدقہ کرنا حرام ہو گا جس سے قرض خواہوں کو نقصان ہو چاہے سرکاری طور پر مقروض پر پابندی لگ چکی ہو یا ابھی نہ لگی ہو، یہ امام مالک کا موقف ہے، اور یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا پسندیدہ موقف ہے، ان کا کہنا ہے کہ: “یہی موقف صحیح ہے، اگرچہ یہ دیگر فقہائے کرام کے فقہی مذہب سے میل نہیں کھاتا، تاہم شرعی اصولوں اور قواعد کے تقاضوں کے عین مطابق ہے؛ کیونکہ اب قرض خواہوں کے حقوق کا تعلق مقروض کے مال سے بن چکا ہے، اسی وجہ سے سرکار اس پر پابندی لگائے گی، اگر قرض خواہوں کے حقوق اس شخص کے مال سے تعلق نہ رکھتے ہوتے تو سرکار بھی اس پر پابندی لگانے کی مجاز نہ ہوتی۔ اس طرح یہ مقروض شخص قریب المرگ مریض کا حکم رکھتا ہے۔ اگر اس مقروض کو صدقہ وغیرہ کرنے کی اجازت دی جائے تو اس سے قرض خواہوں کے حقوق سلب ہوں گے، اور شریعت ایسا کبھی نہیں کرتی؛ کیونکہ شریعت تو سب کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہر ممکنہ طور پر اقدامات کرتی ہے، اور کسی بھی ایسے راستے کو بند کرتی ہے جس سے حقوق ضائع ہوں۔”” ختم شد

دوسرا حکم: اگر قرض خواہوں کو بعینہٖ وہی چیز مل جائے جو اسے پابندی سے پہلے بیچی تھی، یا ادھار دی تھی یا چیز اسے کرائے پر دی تھی: تو قرض خواہ اس چیز کو مفلس شخص سے واپس لے سکتا ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس نے کسی انسان کے پاس اپنا سامان پایا تو وہی اس کا حقدار ہے۔) متفق علیہ؛ تاہم فقہائے کرام رحمہم اللہ نے کسی مفلس اور محجور شخص کے پاس اپنا سامان بعینہٖ پانے کی صورت میں اسے اپنی تحویل میں لینے کے لیے 6 شرائط بیان کی ہیں:

پہلی شرط: اپنی چیز اپنی تحویل میں لینے تک مفلس شخص زندہ موجود ہو؛ کیونکہ ابو داود رحمہ اللہ نے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر مفلس شخص فوت ہو گیا تو اپنے چیز پانے والے کو بھی تمام قرض خواہوں کے برابر ملے گا۔)

دوسری شرط: مفلس کے ذمے اس چیز کی پوری رقم باقی ہو، اگر چیز کے مالک نے اس کی کچھ قیمت وصول کر لی تھی تو وہ اس چیز کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکتا۔

تیسری شرط: وہ چیز بعینہٖ مفلس کی ملکیت میں موجود ہو، اگر اس چیز کی ملکیت میں کوئی اور بھی شریک ہوا تو اس چیز کو واپس اپنی تحویل میں نہیں لے سکتا؛ کیونکہ اس نے اپنی پوری چیز نہیں پائی بلکہ اس کا کچھ حصہ پایا ہے۔

چوتھی شرط: وہ چیز اپنی اصلی حالت میں باقی ہو، اس میں کوئی تبدیلی نہ آئی ہو۔

پانچویں شرط: اس چیز میں کسی اور کا حق نہ ہو؛ مثلاً: مفلس شخص نے اس چیز کو گروی نہ رکھوایا ہوا ہو۔

چھٹی شرط: اس چیز میں کوئی متصل رہنے والا اضافہ نہ ہوا ہو، مثلاً: جانور موٹا تازہ ہو گیا ہو۔

تو جب یہ چھ شرائط پائی جائیں تو چیز کا مالک مفلس سے اسے اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے؛ اس کی دلیل سابقہ ذکر شدہ روایت ہے۔

تیسرا حکم: پابندی لگنے کے بعد کوئی بھی شخص اس محجور آدمی سے لین دین اس وقت تک نہیں کر سکتا تا آں کہ اس سے پابندی اٹھ جائے؛ چنانچہ اگر کوئی شخص اس دوران میں کوئی چیز فروخت کرتا ہے یا قرض دیتا ہے تو وہ پابندی اٹھنے کے بعد ہی اس کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

چوتھا حکم: سرکار اس کی ملکیتی چیز فروخت کر سکتی ہے، اور جن قرض خواہوں کی ادائیگی کا وقت ہو چکا ہے ان کی رقم کے برابر ان میں تقسیم کر دے؛ کیونکہ پابندی لگانے کا مقصد ہی یہی ہے، اگر ادائیگی میں تاخیر کی جائے تو یہ ٹال مٹول میں آئے گا جو کہ ظلم ہے، سرکار محجور مفلس شخص کی رہائش اور کھانے پینے کی بنیادی ضروریات نیلام نہیں کرے گی۔

اور اگر مقروض پر قرض کی ادائیگی کا ابھی وقت نہ آیا ہو تو پھر مفلس ہونے کی وجہ سے قرض فوری ادا کرنا ضروری نہیں ہو گا، نہ ہی یہ قرض ان قرضوں کے ساتھ شمار کیا جائے گا جن کی ادائیگی کا وقت ہو چکا ہے؛ کیونکہ قرض کی ادائیگی کی مقررہ وقت تک مہلت دینا مفلس و مقروض شخص کا حق ہے، لہذا اس کے دیگر حقوق کی طرح یہ بھی ساقط نہیں ہو گا، اور مفلس کے ذمے باقی رہے گا۔ پھر جب جن قرضوں کی ادائیگی کا وقت ہو چکا تھا انہیں ادا کرنے کے بعد اگر فی الوقت ادائیگی کے لیے کوئی قرض باقی نہ بچے تو پابندی خود بخود ہی ختم ہو جائے گی؛ کیونکہ پابندی لگانے کی وجہ باقی نہیں رہی، لیکن اگر پھر بھی کوئی قرض خواہ باقی ہے اور اسے ادائیگی نہیں ہو پا رہی تو پھر پابندی سرکار کے ختم کرنے سے ختم ہو گی؛ کیونکہ سرکار نے ہی اس پر مالی لین دین کی پابندی لگائی ہے، اور وہی اس پابندی کو اٹھا سکتی ہے۔” مختصراً ختم شد
” الملخص الفقهي ” ( 2 / 89 – 95 )

اور اگر پھر بھی قرض خواہ باقی ہوں جن کا قرض ادا کرنا رہتا ہے تو یہ قرض اس کے ذمے باقی رہیں گے، تا آں کہ اللہ تعالی مزید دولت سے نوازے اور بقیہ قرضے بھی ادا کرے گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب