الحمد للہ.
اول:
جب كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے اور يہ طلاق پہلى يا دوسرى ہو اور اس كى عدت ختم نہ ہوئى ہو تو قول كے ساتھ رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، مثلا ميں نے تجھ سے رجوع كر ليا، يا ميں نے تجھے ركھ ليا، يا كسى فعل كے ساتھ جس ميں وہ رجوع كى نيت ركھتا ہو يعنى رجوع كى نيت سے جماع كر لے تو بھى رجوع ہو جائيگا.
جس عورت كو حيض آتا ہو اس كى عدت تين حيض ہے اس ليے جب وہ تيسرے حيض سے پاك ہو كر غسل كر لے تو اس كى عدت ختم ہو جائيگى.
اور صغر سنى يا نااميدى كى بنا پر جس عورت كو حيض نہ آتا ہو اس كى عدت تين ماہ ہے.
اور حاملہ عورت كى عدت وضع حمل ہے.
دوم:
آپ كا اپنى بيوى كو اپنى ماں كے گھر واپس آئے ہوئے ديكھ كر اوكے كہنا، اور في الواقع آپ طلاق ختم نہيں كرنا چاہتے تھے، اور ايك سال تك آپ كا اسے نہ ديكھنا اور اس كے قريب نہ جانا يہ سب اس بات كى دليل ہے كہ اس اوكے كے الفاظ سے رجوع نہيں ہوا؛ كيونكہ آپ كا ارادہ رجوع كا نہيں تھا، بلكہ آپ كا اپنى ماہ كى خدمت اور اس كا وہاں رہنے كو اچھا سمجھنا اور موافقت كرنا تھا، اس وقت اس سے حكم مختلف نہيں ہوگا چاہے يہ الفاظ عدت كے دوران كہے يا عدت كے بعد كيونكہ يہ الفاظ رجوع نہيں تھے.
اس كے بعد جو جماع ہوا يہ عمل حرام ہے، اور آپ كو چاہيے تھا كہ آپ اس سے قبل اس كے بارہ ميں دريافت كرتے خاص كر جب آپ اپنے اس عمل سے پريشان تھے.
اس بنا پر آپ كو اپنے اس اقدام يعنى رجوع كيے بغير بيوى سے جماع كرنے پر اللہ سے توبہ كرنى چاہيے، اور آپ دونوں كو بيوى كے ولى اور گواہوں اور نكاح كى شروط اور مہر كى موجودگى ميں تجديد نكاح كرانا چاہيے، اگر دونوں نكاح كى رغبت ركھتے ہوں تو پھر ليكن اگر رغبت نہيں تو پھر عليحدگى كر ليں، اور آپ كے ليے نكاح كى تجديد كيے بغير اس كے قريب جانا جائز نہيں؛ كيونكہ وہ عورت آپ كے ليے اجنبى ہے.
واللہ اعلم .