جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

عقد نكاح ميں عورت كا وكيل كيا كہے ؟

150534

تاریخ اشاعت : 24-03-2014

مشاہدات : 4400

سوال

اگر باپ اپنى بيٹى كا كسى شخص كو شادى كرنے ميں وكيل بنائے تو وكيل خاوند كو عقد نكاح ميں كيا كہےگا ؟
اگر وہ جہالت كى بنا پر يہ الفاظ كہے كہ: ميں نے اپنى مؤكلہ كا نكاح تيرے ساتھ كيا تو كيا جائز ہوگا، اور اس كے ليے صحيح الفاظ كيا ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر لڑكى كا باپ كسى شخص كو اپنى بيٹى كى شادى كرنے كا وكيل بنائے تو وہ ايسے الفاظ كہے جو اس پر دلالت كريں كہ وہ اس شادى ميں لڑكى كے ولى كى كا جانب سے وكيل ہے.

مثلا اگر وہ يہ كہتا ہے كہ: ميں نے فلاں كى بيٹى جس نے مجھے اپنى بيٹى كى شادى ميں وكيل بنايا ہے كا تيرے ساتھ نكاح كيا.

يا پھر وہ يہ كہے كہ: ميں نے اپنے مؤكل كى فلاں بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا يا اس طرح كے اور كوئى الفاظ بولے تو جائز ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر ولى كا كوئى وكيل ہو تو وكيل كيا كہے گا ؟

مثلا وہ كہے كہ ميں نے اپنى بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا؟

نہيں بلكہ وہ يہ بيان كرے كہ وہ وكيل ہے، لہذا وہ يہ كہے كہ: ميں نے اپنے فلاں مؤكل كى بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا جو كہ فلاں بنت فلاں ہے.

يا پھر ميں نے بطور وكيل فلاں بن فلاں كى بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا.

اور اگر كہے كہ: ميں نے فلاں كى بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا تو يہ صحيح نہيں؛ كيونكہ اسے اس لڑكى پر ولايت حاصل نہيں، حتى كہ وہ سبب بيان كرے كہ وہ فلاں كى بيٹى كا نكاح اس ليے كر رہا ہے كہ وہ اس كا وكيل ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 23 ).

اور شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند كے ليے اور اسى طرح ولى كے ليے بھى نكاح ميں وكيل بنانا صحيح ہے، اس ليے اگر خاوند دور ہو تو وہ آپ كو وكالت نامہ بھيج دے كہ تم فلاں كى بيٹى كے ساتھ ميرى شادى ميں ميرے وكيل ہو، تو آپ وہاں جائيں، اور لڑكى كا ولى كہے كہ ميں نےتيرے مؤكل سے اپنى فلاں بيٹى كا نكاح كيا، اور تم اسے كہو كہ ميں نے اپنے فلاں مؤكل كے ليے اسے قبول كيا تو يہ نكاح صحيح ہوگا "

اور اسى طرح لڑكى كا ولى بھى آپ كو ولى بنا سكتا ہے مثلا آپ خاوند كو كہيں كہ: ميں نے اپنے مؤكل كى بيٹى فلاں بنت فلاں كا نكاح تيرے ساتھ كيا، تو وہ كہے: ميں نے اسے قبول كيا " انتہى

رہا ولى كے وكيل كا قول كہ: ميں نے اپنى مؤكلہ كا نكاح تيرے ساتھ كيا، تو يہ لفظ صحيح نہيں؛ كيونكہ عورت كو اپنا نكاح خود كرنے كا حق حاصل نہيں ہے، اور نہ ہى وہ اپنے نكاح كے ليے كسى دوسرے كو وكيل بنا سكتى ہے.

بلكہ اس كا نكاح اس كا ولى كريگا، كيونہ اس كى اس پر ولايت كا تقاضہ يہى ہے كہ ولى ہى اس كا نكاح كرے، اس ليے نہيں كہ وہ اس لڑكى كى جانب سے وكيل ہے.

ليكن غالب ميں لوگ ان الفاظ ميں فرق نہيں كرتے، اور نہ ہى اس كےمعانى كے اختلاف ميں غور و فكر كرتے اور متنبہ ہوتے ہيں كہ يہ كس پر دلالت كر رہا ہے.

اس ليے ظاہر يہى ہوتا ہے ان الفاظ سے نكاح صحيح ہے اگر وہ ولى كے وكيل ہونے پر عمل كرے، كہ اس نے ولى كے وكيل ہونے كا ارادہ كيا تھا، اور اگر اس كا ارادہ ہو كہ وہ عورت كا وكيل ہے تو نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب