الحمد للہ.
مسافر کے لیے دو نمازوں کو درج ذیل شرائط کی روشنی میں جمع کرنا جائز ہے:
1- نماز قصر کرنے کی مسافت پوری ہو چکی ہو، جو کہ جمہور علمائے کرام کے ہاں تقریباً 80 کلو میٹر ہے، جبکہ کچھ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ قصر کی مسافت مقرر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عرف سے ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (38079 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
2-جمہور علمائے کرام کے ہاں یہ بھی شرط ہے کہ سفر کا مقصد جائز ہو، یعنی اگر کوئی شخص ڈاکہ زنی کے لیے سفر کر رہا ہے، یا زنا اور کسی بھی گناہ کے لیے سفر کر رہا ہے تو اس کے لیے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں یہ شرط نہیں ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (27 /276)
3-سفر میں چار دن یا اس سے کم اقامت کی نیت ہو، چنانچہ اگر زیادہ دن اقامت کرنی ہے تو پھر سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا جائز نہیں ہو گا کہ وہ رمضان کے روزے نہ رکھے، نمازیں قصر اور جمع کر کے پڑھے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر مسافر چار دن سے زیادہ اقامت کی نیت رکھتا ہو تو اس کے لیے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا جائز نہیں ہے کہ نمازیں جمع اور قصر کر کے ادا کرے یا دیگر سفری رخصتوں سے فائدہ اٹھائے، اور اگر مسافر چار دن یا چار سے کم دن سفر میں اقامت کی نیت کرے ، یا مسافر کی اقامت اپنے کام سے منسلک ہے جیسے ہی کام ہو جائے گا وہ واپس روانہ ہو جائے گا یعنی اسے اپنی اقامت کی مدت کا علم نہیں ہے تو پھر ان کے لیے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا جائز ہے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8 /113-114)
4-سفر کی رخصتوں پر عمل تبھی ہو سکتا ہے جب اپنے شہر سے باہر نکل چکا ہو۔
دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (27 /279)
5-جمہور علمائے کرام دو نمازوں کو جمع تقدیم کرنے کے متعلق یہ شرط رکھتے ہیں کہ دونوں نمازیں تسلسل کے ساتھ ادا کرے، چنانچہ دونوں نمازوں کے درمیان لمبا وقفہ مت کرے۔
اس شرط کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے کہ یہ کوئی شرط نہیں ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: "مجموع الفتاوى" (24 / 54)
6- دو جمع کی جانے والی نمازوں کے درمیان ترتیب شرط ہے، جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔
چنانچہ دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں: "دو نمازوں کو جمع کرنے کی صورت میں ترتیب ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے، یعنی ظہر کی نماز پہلے پڑھے اور پھر عصر کی نماز ادا کرے، اسی طرح مغرب کی نماز پہلے ادا کرے اور پھر عشا کی نماز ادا کرے چاہے جمع تقدیم ہو یا جمع تاخیر دونوں میں تربیت ملحوظ رکھے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8/139)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ترتیب شرط ہے، یعنی پہلے پہلی نماز پڑھے اور پھر دوسری نماز ادا کرے؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم ایسے ہی نماز ادا کرو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)، پھر شریعت نے بھی نمازوں کے اوقات میں ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے، تاہم اگر کوئی شخص بھول جائے یا لا علم ہو، یا ایسی مسجد میں پہنچا جہاں لوگ عشا کی نماز ادا کر رہے تھے، اور مسافر کا جمع تاخیر کرنے کا ارادہ تھا، اس نے پہلے ان کے ساتھ عشا کی نماز ادا کی پھر مغرب کی نماز ادا کی، تو کیا ان تمام صورتوں میں نمازوں کی ترتیب ساقط ہو جائے گی یا نہیں؟
ہمارے فقہائے کرام کے ہاں مشہور موقف تو یہ ہے کہ ترتیب ساقط نہیں ہو گی، اس بنا پر اگر کسی شخص نے بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے یا دوسری نماز کی جماعت پانے کی وجہ سے یا کسی بھی سبب سے دوسری نماز پہلے پڑھ لی تو یہاں جمع صحیح نہیں ہو گی، تو ایسی صورت میں مسافر نمازی کیا کرے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: ترتیب بدلتے ہوئے اس نے جو دوسری فرض نماز پہلے ادا کی ہے وہ بطور فرض ادا نہیں ہوئی، اسے دوبارہ ادا کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر ، ایک آدمی نے جمع تاخیر کی نیت کی ہوئی تھی پھر وہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز عشا پڑھ رہے ہیں تو وہ شخص نمازیوں کے ساتھ عشا کی نیت کے ساتھ شامل ہو گیا، پھر جب عشا کی نماز سے فارغ ہو گیا تو اس نے مغرب کی نماز ادا کر لی ۔ تو اس کے بارے میں ہم کہیں گے کہ: اس کی عشا کی نماز صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ عشا کی نماز مغرب سے پہلے پڑھ لی ہے، حالانکہ ترتیب کا خیال رکھنا شرط ہے، اس لیے عشا کی نماز دوبارہ پڑھے گا۔ جبکہ اس کی مغرب کی نماز صحیح ہے۔ ہم جو یہ کہہ رہے ہیں کہ نماز صحیح نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ فرض ادا نہیں ہوا البتہ بطور نفل اس نماز کا ثواب ملے گا۔" مختصراً ختم شد
"الشرح الممتع" (4 /401-402)
واللہ اعلم