سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اگر كسى دوسرے ملك كى رؤيت ہلال پر عمل كيا جائے تو كيا اپنے علاقے كے لوگوں كے ساتھ نماز عيد ادا كرنے كے ليے عيد مؤخر كى جا سكتى ہے ؟

سوال

ميں خود چاند ديكھ كر نماز كے روزے اور عيد ادا نہيں كرتا، ليكن دوسرے دو عادل مسلمانوں كى رؤيت پر عمل كرتا ہوں، مشكل يہ در پيش ہے كہ ہمارا علاقہ ہميشہ سب مسلمانوں سے ايك دن دير سے روزہ ركھتا اور ايك دن تاخير سے عيد مناتا ہے، اور ميں وحدت پر عمل كرتا ہوں اور اكثريت كے ساتھ روزہ ركھتا اور عيد مناتا ہوں.
ہم سب انڈنيشيا سے ليكر مغربى ملكوں تك مسلمان ہيں ميرا سوال نماز عيد كے بارہ ميں ہے ميں نماز عيد كے ليے سفر پر نہيں جا سكتا تو كيا اگر ميں اپنے علاقے كے لوگوں كے ساتھ نماز عيد ادا كرتا ہوں اور يہ ايك دن كے بعد ہوگى تو كيا صحيح ہے يا كہ ميں نماز عيد ادا نہ كروں تو اس طرح اجروثواب ضائع ہو جائيگا، لا حول و لا قوۃ الا باللہ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آپ كے علاقے اور ملك كے لوگ شرعى رؤيت ہلال پر عمل كرتے ہيں تو پھر آپ ان كے ساتھ ہى روزہ ركھيں اور ان كے ساتھ ہى نماز عيد ادا كريں گے، اور آپ كے ليے ان كى رؤيت كو چھوڑ كر دوسرے علاقے كى رؤيت ہلال پر عمل كرنا جائز نہيں ہوگا.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" روزہ اسى دن ہے جس دن تم روزہ ركھتے ہو، اور عيد الفطر اسى دن ہے جس دن تم عيد الفطر مناتے ہو، اور عيد الاضحى اسى دن ہے جس دن تم قربانى كرتے ہو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 697 ).

امام ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں: بعض اہل علم نے اس حديث كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے:

اس حديث كا معنى يہ ہے كہ: روزہ اور عيد الفطر جماعت اور لوگوں كے ساتھ ہوگى.

علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور اگر آپ قائل كے اس قول پر عمل كريں كہ ايك علاقے كى رؤيت ہلال سارے علاقوں اور ملكوں پر لازم ہے تو اس كا تقضاضا يہ ہو گا كہ آپ ان سے قبل عيد ادا كرينگے تو پھر آپ اپنى عيد كو مخفى ركھيں ليكن دوسرے دن ان كے ساتھ ہى عيد الفطر كى ادائيگى بطور قضاء كريں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر آپ يہ رائے ركھيں كہ پہلے قول پر عمل كرنا واجب ہے اور يہ كہ جب شرعى طريقہ سے مسلمانوں كے كسى ايك علاقے ميں رؤيت ہلال ثابت ہو جائے تو اس پر عمل كرنا واجب ہے، اور آپ كے علاقے اور ملك كے لوگ اس پر عمل نہ كريں، ليكن آپ كى دو رائے ميں سے ايك ہو تو آپ كو مخالفت كا اظہار نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ ايسا كرنے ميں فتنہ و فساد اور خرابى اور بدنظمى و رد ہے.

ليكن يہ ممكن ہے كہ آپ خفيہ طور پر روزہ ركھيں اور شوال كا چاند نظر آنے پر روزہ چھوڑ ديں، ليكن اس علاقے كے لوگوں كى مخالفت مت كريں، اسلام اس كا حكم نہيں ديتا " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 44 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب