الحمد للہ.
نفل نماز کو مختصر ادا کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے نفل نماز کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم: ایسے نوافل جنہیں مختصر ادا کرنا مسنون ہے، ان میں درج ذیل نمازیں شامل ہیں:
٭فجر کی دو سنتیں
اس کی دلیل صحیح بخاری: (1165) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز فجر سے پہلے دو رکعات مختصر ادا کیا کرتے تھے، حتی کہ میں دل میں کہتی: کیا آپ نے سورت فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں؟!)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فجر کی دو سنتوں کو مختصر ادا کرنا مسنون عمل ہے، چنانچہ پہلی رکعت میں سورت الکافرون پڑھے اور دوسری رکعت میں سورت الاخلاص پڑھے، یا پھر پہلی رکعت میں سورت بقرہ کی آیت 136: قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ پڑھے اور دوسری رکعت میں سورت آل عمران کی آیت 64 : قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ پڑھے۔
اسی طرح رکوع بھی مختصر کرے، لہذا کامل رکوع کی کم سے کم کیفیت اپنائے اور تین بار رکوع کی تسبیح { سبحان ربي العظيم } کہے، سجدے میں بھی ایسے ہی کرے، اور تشہد بھی لمبا نہ کرے، تو فجر کی سنتیں ادا کرنے کا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مسنون طریقہ ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: " لقاء الباب المفتوح "
٭ اسی طرح جب امام خطبہ دے رہا ہو تو تحیۃ المسجد بھی مختصر ادا کرنے چاہییں۔
اس کی دلیل صحیح مسلم: (875) میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، تو سلیک رضی اللہ عنہ دوران خطبہ آ کر بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سلیک! کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کرو، اور انہیں مختصر ادا کریں، پھر فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ادا کر کے بیٹھے، اور انہیں مختصراً ادا کرے۔)"
٭قیام اللیل کا آغاز دو ہلکی اور مختصر رکعتوں سے کرے:
اس کی دلیل سنن ابو داود: (1323) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی رات کے وقت قیام کے لیے کھڑا ہو تو پہلے ہلکی دو رکعات ادا کرے۔) نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے بھی یہ چیز صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے۔
٭ اسی طرح طواف کی دو رکعتوں کے بارے میں بھی یہی ہے کہ مختصر پڑھی جائیں؛ کیونکہ ان میں بھی فجر کی سنتوں اور مغرب کی دو رکعات کی طرح ہلکی پھلکی قراءت کرنا شرعی عمل ہے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات واضح رہے کہ ان دو رکعتوں کو ہلکی اور مختصر ادا کرنا شرعی عمل ہے، اس کے لیے پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھے، نیز ان سے پہلے یا بعد میں بھی کوئی دعا نہیں ہے۔" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (24/463 - 464)
دوسری قسم:
ایسے نوافل جن میں طوالت مسنون ہے، جیسے کہ نماز کسوف اور قیام اللیل ۔
اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ نماز کسوف میں لمبی تلاوت فرماتے، جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: (ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں سورج گرہن ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو با جماعت نماز کسوف پڑھائی، اور سورت البقرۃ کی تلاوت کے برابر لمبا قیام فرمایا۔۔۔)
الشیخ مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں دلیل ہے کہ نماز کسوف کی جماعت کرواتے ہوئے لمبی سورت پڑھ کر قیام کرنا جائز ہے اور تمام فقہائے کرام کے ہاں یہ عمل مستحب ہے۔" ختم شد
" مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح " (5/136)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کی نماز کس طرح ادا کرتے تھے اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دو لفظوں کو استعمال کیا اور کہا کہ: طویل اور خوبصورت نماز ادا فرماتے، چنانچہ آپ کہتی ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان ہو یا غیر رمضان 11 رکعات سے زیادہ ادا نہیں کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم چار رکعات ایسی ادا کرتے کہ آپ ان کی طوالت اور خوبصورتی کے بارے میں مت پوچھیں، پھر اس کے بعد مزید چار رکعات ادا کرتے آپ ان کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں بھی مت پوچھیں، پھر آپ تین رکعات ادا کرتے تھے۔۔) صحیح مسلم: (738)
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث مبارکہ کو دیگر احادیث سے ملا کر دیکھیں تو نماز میں لمبا قیام اور لمبی تلاوت ، زیادہ تعداد میں رکوع اور سجود کرنے سے بہتر ہے، یہی امام شافعی اور ان کے ہمنواؤں کا موقف ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: شرح صحیح مسلم
تیسری قسم:
ایسے نوافل جن کی تفصیلات میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انہیں طویل یا مختصر پڑھا جائے:
تو اس قسم کے نوافل کے بارے میں اہل علم کے ہاں اختلاف ہے کہ ان کی ادائیگی میں کیا افضل ہے؟ طویل قیام کے ساتھ کم تعداد میں نوافل ادا کیے جائیں یا ہلکے قیام کے ساتھ زیادہ تعداد میں رکوع و سجود ہوں؟
چنانچہ حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: کثرت کے ساتھ رکوع و سجود طویل قیام سے زیادہ افضل ہیں۔
جیسے کہ علامہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"احادیث میں آتا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی سنتوں، قیام اللیل کی افتتاحی دو رکعات ، جمعہ کے دن دوران خطبہ مسجد میں پہنچنے پر تحیۃ المسجد کی ادائیگی مختصر طور پر فرمائی ؛ جبکہ نماز کسوف کے بارے میں یہ آتا ہے کہ آپ نے نماز کسوف لمبی ادا کی ہے، تو ان نفل نمازوں کے بارے میں افضل یہی ہے کہ انہیں اسی انداز سے ادا کیا جائے جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ادا فرمائی ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ: بلا شبہ یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات بہترین عملی نمونہ ہیں۔[الاحزاب: 21] لیکن ان کے علاوہ جتنی بھی نمازیں ہیں یعنی جن کی ادائیگی کے بارے میں تخفیف یا تطویل کا ذکر نہیں ملتا تو ان میں قیام طویل کرنے کی بجائے کثرت سے رکوع و سجود کرنا زیادہ افضل ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بندہ اپنے رب کے قریب ترین تب ہوتا ہے جب وہ سجدے کی حالت میں ہو) ایسے ہی سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (تم کثرت سے سجدے کرو؛ کیونکہ تم اللہ تعالی کے لیے ایک سجدہ بھی کرو گے تو اللہ تعالی تمہیں اس کی وجہ سے ایک درجہ بلند فرما دے گا اور تمہارا ایک گناہ بھی معاف فرما دے گا۔) ۔۔۔۔ پھر بذات خود سجدے کی بہت فضیلت اور تاکید کی گئی ہے؛ کیونکہ نماز چاہے نفل ہو یا فرض ہر نماز میں سجدہ ضروری ہے، اور کسی بھی صورت میں غیر اللہ کے لیے جائز نہیں ہے، جبکہ قیام تو نفل میں ساقط ہو جاتا ہے، اور نماز کے علاوہ بھی ممکن ہے جیسے کہ والدین کے لیے، عالم دین کے لیے اور قبیلے کے سربراہ کے لیے ۔ لہذا زیادہ فضیلت اور تاکید والے عمل کو کثرت سے بجا لانا زیادہ بہتر ہے۔" ختم شد
" كشاف القناع " (1/441)
جبکہ شافعی فقہائے کرام اس بات کی طرف مائل ہیں کہ: لمبا قیام کثرت سے سجدے اور رکوع کرنے سے افضل ہے۔
جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے ہاں لمبا قیام ، لمبے سجود اور رکوع وغیرہ سے زیادہ افضل ہے، اسی طرح کثرت سے رکعات پڑھنے سے بھی لمبا قیام افضل ہے۔" ختم شد
" المجموع " (3/537)
جبکہ کچھ اہل علم نے اس مسئلے میں دن اور رات کی نماز میں تفریق کی ہے۔
چنانچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: دن کے وقت رکوع اور سجدے کثرت سے کرنا زیادہ افضل ہے، جبکہ رات کے وقت لمبا قیام کرنا افضل ہے۔ ہاں اگر کسی شخص نے رات کے وقت قرآن کریم کے جز کی تلاوت کرنی ہو تو پھر کثرت سے رکوع و سجود افضل ہیں؛ کیونکہ اس نے اپنے جز کی تلاوت کرنی ہے اور کثرت رکوع و سجود کے ذریعے فائدہ اٹھانا ہے۔
ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے یہ موقف اس لیے اپنایا کہ صحابہ کرام نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رات کی نماز میں لمبے قیام کا تذکرہ کیا ہے، جبکہ دن میں نوافل کا تذکرہ ایسے نہیں ملتا جیسے رات کی نماز کا ملتا ہے۔" ختم شد
" نيل الأوطار " (3/91) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
خلاصہ کلام:
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے جن نوافل کے متعلق ہلکی ادائیگی قولی یا فعلی کسی بھی انداز سے منقول ہے تو ان نوافل کی ادائیگی مختصراً انداز میں کرنا سنت ہے، اور جن کی ادائیگی میں لمبے قیام کا تذکرہ ہے تو ان کی ادائیگی لمبے قیام کے ساتھ افضل ہے۔
ان کے علاوہ جتنے بھی نوافل ہیں تو ان کے بارے میں اہل علم کی آرا مختلف ہیں کہ لمبا قیام افضل ہے یا رکعات کی کثرت کی صورت میں زیادہ رکوع و سجود کرنا افضل ہے؟
تو ایسی صورت میں نفل پڑھنے والے کو کہا جائے گا کہ: آپ وہ طریقہ کار اپنائیں جن کی بدولت آپ زیادہ خشوع اپنائیں، اگر لمبا قیام زیادہ بہتر اور خشوع کا باعث ہے تو قیام لمبا کرے، اور اگر زیادہ رکوع و سجود خشوع کے باعث ہیں تو پھر زیادہ رکوع و سجود کرے، ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جب تم میں سے کوئی اکیلے نماز پڑھے تو جیسے چاہے نماز پڑھے) مسلم: (467)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کامیاب عقل مند انسان نفل عبادات کے متعلق جانتا ہے کہ کس طرح نفل عبادات بجا لائے، اس لیے عبادت کا طریقہ وہی اپنائے جو اس کے لیے بہترین ہو۔" ختم شد
" الشرح الممتع " (5/79-80)
واللہ اعلم