سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایک لڑکی کا والد رمضان میں دن کے وقت سگریٹ نوشی کرتا ہے تو وہ کیا کرے؟

221331

تاریخ اشاعت : 14-07-2015

مشاہدات : 11803

سوال

سوال: میرے والد ظاہر یہی کرتے ہیں کہ انہوں نے روزہ رکھا ہوا ہے، لیکن مجھے ان کے منہ سے سگریٹ کی بو رمضان میں دن کے وقت آتی ہے، اور جب میں انہیں کہتی ہوں کہ: "سگریٹ کی بو آ رہی ہے آپ کا روزہ ٹوٹ گیا ہے " تو وہ مجھے کہتے ہیں: "پاگل مت بنو" یہ بات ذہن نشین رہے کہ وہ ہمارے ساتھ سحری بھی کرتے ہیں، فجر کی نماز پڑھ کر سو جاتے ہیں، اور بالکل دیگر روزے داروں کی طرح کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہیں، ایک بار میں نے انہیں بالکونی پر سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دیکھا تو میں انہیں ٹوکنے سے شرما گئی، اب مجھے پتا نہیں چل رہا کہ میں اپنے والد کی سگریٹ نوشی ترک کرنے پر کیسے مدد کروں؟ میں انہیں کیسے سمجھاؤں تا کہ صحیح انداز سے روزے رکھیں اور اس آفت کو ترک کر دیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سگریٹ نوشی رمضان اور غیر رمضان ہر حالت میں حرام ہے، اور اس بات کا بیان پہلے فتوی نمبر: (10922) میں گزر چکا ہے، اور اس سے روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے، جیسے کہ پہلے فتوی نمبر: (37765) میں گزر چکا ہے۔

اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ آپ کے والد نے رمضان میں دن کے وقت  سگریٹ نوشی یا کسی اور طریقے سے اپنا روزہ توڑ لیا ہے تو یہ  بہت بڑا جرم ہے، اور انہوں نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔

چنانچہ ابن خزیمہ (1986) اور ابن حبان (7491) میں ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (میں سویا ہوا تھا، کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور انہوں نے مجھے میرے بازو سے پکڑ کر ایک ایسے پہاڑ کی طرف لے گئے جس پر چڑھنا مشکل تھا:
 ان دونوں نے کہا: اوپر چڑھو!
میں نے کہا: مجھ میں چڑھنے کی ہمت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: ہم مدد کرتے ہیں۔
تو میں اوپر چڑھ گیا، جس وقت چوٹی پر پہنچا تو بہت ہی چیخ و پکار سنائی  دی، میں نے کہا: یہ آوازیں کیسی ہیں؟
انہوں نے کہا: یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے۔
پھر وہ مجھے ایک ایسی قوم کے پاس لے گئے جنہیں  ایڑھیاں باندھ کر الٹا لٹکایا گیا تھا، ان کی بانچھیں پھاڑ دی گئیں تھیں جن سے خون جاری تھا، میں نے کہا: "یہ کون ہیں؟" تو انہوں نے کہا: "یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ افطار ہونے سے پہلے ہی روزہ توڑ لیتے تھے") اس حدیث کو البانی نے " صحیح موارد الظمآن "(1509) میں صحیح قرار دیا ہے۔

البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"یہ ایسے شخص کی سزا ہے جس نے افطاری کا وقت ہونے سے پہلے ہی جان بوجھ کر روزہ توڑا، تو ایسے شخص کا کیا حال ہو گا جس نے روزہ بالکل رکھا ہی نہیں ! ہم اللہ تعالی سے دنیا و آخرت کی سلامتی اور عافیت  مانگتے ہیں"
مزید کیلئے فتوی نمبر: (38747) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

آپ کو اس پیچیدہ مسئلے کے حل کیلئے دانشمندانہ اقدام کرنے ہونگے، چنانچہ اگر آپ کو غالب گمان یہی ہو کہ آپ کے والد آپ کے براہِ راست بات کرنے سے مان جائیں گے تو انہیں اس بارے میں آگاہ کریں، اور اس عمل کی سنگینی واضح کریں۔

بصورتِ دیگر یہ باتیں ان تک پہنچانے کیلئے بالواسطہ ذرائع کا استعمال کریں، مثال کے طور پر ایسی آڈیو  چلائیں جس میں رمضان میں دن کے وقت سگریٹ نوشی کا حکم بیان کیا گیا ہو کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، یا ان کے سامنے ایسا تحریری فتوی رکھ دیں جس میں رمضان کا احترام  اور رمضان  کے آداب پامال کرنے کی سنگینی بیان کی گئی ہو۔

اور اگر آپ کے غالب یقین کے مطابق والد سے اس موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے سے زیادہ نقصانات کا خدشہ ہو تو جلد بازی سے کام مت لیں، اور اس موضوع پر گفتگو کیلئے مناسب وقت اور لمحے کا انتطار کریں۔

سگریٹ نوشی  وغیرہ  جیسے امور سب لوگوں کو علم ہے کہ یہ حرام ہیں، اور یقیناً ان کے ذہن میں بھی یہی ہے کہ یہ عمل حرام ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ چھپ کر سگریٹ نوشی کر رہے تھے، چنانچہ یہاں معاملہ یہ نہیں ہے کہ انہیں کسی ایسی چیز کے بارے میں بتلایا جائے جس کے بارے میں انہیں علم نہ ہو، یا اتمام حجت کرنا مقصود ہو، کیونکہ اتمام حجت آپ کے اس بارے میں گفتگو کرنے یا نہ کرنے سے پہلے ہی ہو چکا ہے؛ لہذا اب اس معاملے کو  ہر جانب سے دیکھنے کی ضرورت ہے، اور آپ اس کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جانتی ہیں، کیونکہ آپ اپنے والد کے بارے میں بہتر معلومات رکھتی ہیں، اسی طرح ان کے مزاج کو بھی جانتی ہیں، اس لیے آپ اس موضوع کو چھیڑنے پر حاصل ہونے والے مثبت و منفی نتائج کو سامنے رکھیں کہ ان نتائج کا آپ پر اور آپ کے خاندان پر کیا اثر ہوگا۔

لہذا اگر آپ کو موجودہ حالت سے بھی زیادہ نقصان کا خدشہ ہو تو آپ کیلئے انہیں منع کرنا یا حکم دینا لازمی نہیں ہے، بلکہ اس موضوع پر ان سے بات کرنا بھی ضروری نہیں ہے، تاہم آپ کے ذمہ ایک واجب رہے گا کہ آپ ان کیلئے ہدایت و اصلاح کی دعا کریں، نیز انہیں سمجھانے کیلئے مناسب وقت کی ٹوہ میں لگی رہیں،  اس کیلئے آپ اشارۃً اور بالواسطہ  نصیحت کا انداز بھی اپنا سکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی جاسوسی اور عیب جوئی میں مت لگنا ، کیونکہ یہ جائز نہیں ہے، بلکہ اگر انہیں اس بات کا علم ہو گیا کہ آپ ان کی جاسوسی میں مبتلا ہیں تو وہ آپ سے ناراض بھی ہو سکتے ہیں اور آپ کی کوئی بھی بات ماننے سے انکار کر سکتے ہیں۔

پہلے بھی مسلمانوں کو ماہِ رمضان کے روزے رکھنے سے متعلق  دعوت و تبلیغ کے انداز کے بارے میں گفتگو گزر چکی ہے، اس لیے آپ فتوی نمبر: (50745) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب